کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 215
گھڑت اور ممنوع امور میں شامل ہیں۔ ان علوم میں سے ایک علم وہ بھی ہے جسے معتزلہ نے ایجاد کیا تھا، یعنی وہ علم جس میں تقدیر اور اللہ کے لیے مثالیں بیان کرنے پر کلام کیا جاتا ہے، حالانکہ تقدیر میں خوض اور بحث کرنے کی ممانعت ہے، چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہے:
(( لَا یَزَالُ أَمْرُ ھٰذِہِ الأُمَّۃِ مُوَافِیاً أَوْ مُقَارِباً مَا لَمْ یَتَکَلَّمُوْا فِيْ الْوِلْدَانِ وَالْقَدَرِ )) [1]
(اسے ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے، اسے موقوف بھی بیان کیا گیا ہے اور بعض نے اس کے موقوف ہونے کو راجح قرار دیا ہے)
[اس امت کا معاملہ حق کے موافق یا میانہ روی پر مشتمل رہے گا، جب تک یہ لڑکوں اور تقدیر سے متعلق کلام نہ شروع کر دیں گے]
اسی طرح ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے مرفوعاً بیان کیا ہے:
(( إِذَا ذُکِرَ أَصْحَابِيْ فَأَمْسِکُوْا وَإِذَا ذُکِرَتِ النُّجُوْمُ فَأَمْسِکُوْا )) [2]
(رواہ البیھقي، وقد روي من وجوہ متعددۃ، في أسانیدھا مقال)
[جب میرے اصحاب کا ذکر کیا جائے تو رک جاؤ اور جب ستاروں کا ذکر کیا جائے تو رک جاؤ]
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے میمون بن مہران کو کہا تھا:
’’خبردار! جو تم نے کبھی نجوم میں نظر کی، کیونکہ یہ نظر کہانت کی طرف دعوت دیتی ہے۔ خبردار! جو تم نے تقدیر سے متعلق گفتگو کی، کیونکہ یہ زندیقیت کی طرف بلاتی ہے۔ خبردار! جو تم نے ایک صحابی کو بھی برا کہا، ورنہ اللہ تعالی تجھے اوندھے منہ آگ میں ڈال دے گا۔‘‘[3]
(خرجہ أبو نعیم مرفوعاً، ولا یصح رفعہ)
تقدیر پر بحث کی صورتیں:
تقدیر میں بحث کرنے کی ممانعت کئی طرح سے معلوم ہوتی ہے:
1۔ بحث کرنے والا کتاب اللہ کے ایک حصے کو دوسرے حصے سے ٹکرائے گا۔ تقدیر کو ثابت کرنے والا ایک آیت سے اس کا اثبات نکالے اور اس کی نفی کرنے والا دوسری آیت سے اس کی نفی نکالے، پھر ان
[1] صحیح ابن حبان (۱۵/۱۱۸) مستدرک الحاکم (۱/۸۸)
[2] المعجم الکبیر (۱۰/۱۹۸) نیز دیکھیں: السلسلۃ الصحیحۃ (۱/۳۴)
[3] طبقات المحدثین بأصبھان لأبي نعیم (۱/۳۱۷) لسان المیزان (۱/۲۹۸)