کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 213
زیادہ اہم ہے۔ نیز اس علم میں زیادہ باریکی میں اترنا انسان کو مسلمانوں کے ان محرابوں کی طرف سے بدگمانی میں مبتلا کر دیتا ہے جو بڑے بڑے شہروں میں بنائے گئے ہیں، چنانچہ نئے اور پرانے دور میں اس فن کے جاننے والوں کی اکثریت سے یہ بد گمانی واقع ہوئی ہے اور یہ بد گمانی صحابہ و تابعین کی نماز کے حق میں بہت سے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں غلط اعتقاد کی طرف پہنچاتی ہے، اس لیے یہ امر باطل ہے۔
امام احمد رحمہ اللہ نے قطبی تارے سے استدلال کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ حدیث میں یوں مروی ہے: (( مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَۃٌ )) [1] [مشرق و مغرب کے درمیان قبلہ ہے] یعنی قبلے کی تعیین کے لیے قطبی تارے وغیرہ کا اعتبار نہیں کیا گیا۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کعب رضی اللہ عنہ پر اس بات کا انکار کیا تھا کہ ’’أن الفلک تدور‘‘ [یقینا آسمان گھومتا ہے] اسی طرح امام مالک رحمہ اللہ نے اس کا انکار کیا تھا۔
نجومیوں کے اس قول پر کہ ہر ملک میں زوال مختلف ہوتا ہے، امام احمد رحمہ اللہ نے انکار فرمایا تھا۔ ایسے اقوال پر ان کے اور کسی دوسرے کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق کچھ کلام نہیں فرمایا ہے، اگرچہ ستاروں کے متعلق علم رکھنے والے یہ لوگ اس پر یقین رکھتے ہیں۔
دوسرے یہ کہ علمِ نجوم کے حصول میں مشغول ہونا انسان کو بہت بڑے فساد کی طرف لے جاتا ہے۔ اس علم کے جاننے والوں میں سے بعض نے حدیثِ نزول [وہ حدیث جس میں رب تعالیٰ کے آسمانِ دنیا پر نزول فرمانے کا ذکر ہے] کا انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ رات کا ثلث اور تہائی مختلف ملکوں میں مختلف ہوتا ہے، تو پھر وقتِ معین پر نزول کس طرح ہو سکتا ہے؟ حالانکہ دینِ اسلام میں اس اعتراض کی قباحت واضح طور پر معلوم ہے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا ان کے خلفاے راشدین اس اعتراض کو سنتے تو وہ اعتراض کرنے والے کے ساتھ مناظرہ نہ کرتے، بلکہ اسے سزا دینے میں جلدی کرتے یا اسے منافقین اور مکذبین کے زمرے میں شامل کرتے۔
اسی طرح علمِ انساب کا بہت زیادہ علم حاصل کرنے کی حاجت و ضرورت نہیں ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ نے اس سے منع کیا ہے، حالانکہ صحابہ و تابعین کا ایک گروہ علم انساب کو جاننے اور اس کا اہتمام کرنے والا تھا۔ ایسے ہی عربی علوم میں سے علم لغت اور علم نحو میں بہت وسیع علم حاصل کرنا اہم علم کے حاصل کرنے سے باز رکھتا ہے اور ان علوم میں زیادہ واقفیت پیدا کرنا علم نافع سے محروم کر دیتا ہے۔
[1] سنن الترمذي (۳۴۲) سن النسائي (۲۲۴۳) سنن ابن ماجہ (۱۰۱۱)