کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 212
’’ویتعلم من أسماء النجوم ما یھتدي بہ‘‘ [اور انسان ستاروں کے ناموں کا اتنا علم حاصل کرے جس کے ساتھ وہ راستہ معلوم کر لے] لیکن قتادہ رحمہ اللہ چاند کی منازل کے سیکھنے کو مکروہ بتاتے ہیں اور ابن عیینہ رحمہ اللہ بھی اس کی رخصت نہیں دیتے۔ طاؤس رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا ہے کہ ستاروں پر نظر کرنے والے اور حروف ابجد سیکھنے والے بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کا اللہ کے ہاں کچھ حصہ نہیں ہے۔[1] علامہ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ تاثیر پر محمول ہے نہ کہ تیسیر پر، کیونکہ علم تاثیر باطل اور حرام ہے۔ 10۔ اس کی وعید میں مندرجہ ذیل مرفوع حدیث وارد ہوئی ہے: (( مَنِ اقْتَبَسَ عِلْمًا مِنَ النُّجُومِ فَقَدِ اقْتَبَسَ شُعْبَۃً مِنَ السِّحْرِ )) [2] (خرجہ أبو داؤد من حدیث ابن عباس مرفوعاً) [جس نے نجوم کا کچھ علم سیکھا، اس نے جادو کا ایک حصہ حاصل کیا (جو حرام ہے)] 11۔ نیز سیدنا قبیصہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں رسول اللہ نے فرمایا ہے: (( اَلْعِیَافَۃُ وَالطِّیَرَۃُ وَالطِّرْقُ مِنَ الْجِبْتِ )) [3] [شگون (نیک وبد) لینے کے لیے پرندے کو اڑانا، اور فال نکالنا جبت سے ہے] اس حدیث میں لفظ ’’ عیافت‘‘ کا مطلب ہے پرندے کو اڑانا اور ’’طِرق‘‘ کا مطلب ہے زمین میں خط لگانا۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ علم تاثیر باطل اور حرام ہے۔ اس کے مقتضا پر عمل کرنا ستاروں کا تقرب حاصل کرنے کی مانند ہے اور ستاروں کا قرب چاہنا کفر ہے۔ باقی رہا ستاروں کی تیسیر اور چال کا علم تو جمہور کے نزدیک راہنمائی حاصل کرنے، راستہ معلوم کرنے اور قبلے کی سمت جاننے کے لیے بقدر ضرورت و حاجت اس کا علم حاصل کرنا جائز ہے اور جتنا علم اس سے زیادہ ہے، اس کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ وہ انسان کو ایسے علم کے حصول سے مشغول کرنے والا ہے جو ا س سے
[1] شرح السنۃ للبغوي (۱۲/۱۸۳) [2] سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۳۹۰۵) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۳۷۲۶) [3] سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۳۹۰۷) اس کی سند میں ’’حیان بن العلائ‘‘ ضعیف ہے۔