کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 210
7۔ زید بن اسلم سے مروی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا: ’’مَا أعَلَمَ فُلَاناً‘‘ (فلاں شخص کتنا بڑا عالم ہے!) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: (( بِمَ؟ )) (کس علم کا (وہ بڑا عالم ہے؟) انھوں نے جوا ب دیا: ’’بِأَنْسَابِ النَّاسِ‘‘ [لوگوں کے نسب جاننے والا (بڑا عالم ہے)] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( عِلْمٌ لَّا یَنْفَعُ وَجْھلٌ لَا یَضُرُّ )) [یہ ایک ایسا علم ہے جس کا جاننا فائدہ نہیں دیتا اور جس کا نہ جاننا نقصان نہیں پہنچاتا] (اسے ابو نعیم نے ’’ریاضۃ المتعلمین‘‘ میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے( اس روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ انھوں (زید بن اسلم) نے کہا تھا: ’’أعلم الناس بأنساب العرب، وأعلم الناس بالشعر وبما اختلفت فیہ العرب‘‘ [وہ شخص عربوں کے نسب لوگوں سے زیادہ جانتا ہے، وہ لوگوں سے شعر زیادہ جانتا ہے اور جس میں عربوں کا اختلاف ہے، اسے بھی وہ دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ جانتا ہے] اس کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: (( اَلْعِلْمُ ثَلَاثَۃٌ مَا خَلَاھُنَّ فَھُوَ فَضْلٌ: اٰیَۃٌ مُحْکَمَۃٌ أَوْسُنَّۃٌ قَائِمَۃٌ أَوْ فَرِیْضَۃٌ عَادِلَۃٌ )) [علم تین ہیں جو ان کے سوا ہے وہ زائد ہے: آیت محکمہ، سنت قائمہ اور فریضہ عادلہ] لیکن یہ اسناد صحیح نہیں ہے۔ اس کی سند میں موجود راوی بقیہ نے غیر ثقہ سے تدلیس کی ہے۔[1] مگر حدیث کے آخری الفاظ کو ابوداود اور ابن ماجہ نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: (( اَلْعِلْمُ ثَلَاثَۃٌ مَا سِوَی ذٰلِکَ فَھُوَ فَضْلٌ: اٰیَۃٌ مُحْکَمَۃٌ أَوْسُنَّۃٌ قَائِمَۃٌ أَوْ فَرِیْضَۃٌ عَادِلَۃٌ )) [2] [علم تین ہیں جو ان کے سوا ہے وہ زائد ہے: آیت محکمہ، سنت قائمہ اور فریضہ عادلہ] مگر اس کی سند میں عبدالرحمن بن زیاد افریقی ہے، جس کا ضعف مشہور ہے۔ 8۔ حدیث میں انساب کو سیکھنے کا حکم دیا گیا ہے، کیونکہ اس سے صلہ رحمی کی جاتی ہے، چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (( تَعَلَّمُوْا مِنْ أَنْسَابِکُمْ مَا تَصِلُوْنَ بِہٖ أَرحَامَکُمْ )) (أخرجہ أحمد والترمذي) [3]
[1] دیکھیں: لسان المیزان (۳/۱۰۳) [2] سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۲۸۸۵) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۵۴) [3] مسند أحمد (۲/۳۷۴)، سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۹۷۹)