کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 206
اللہ تعالیٰ نے ابو البشر آدم علیہ السلام کو چیزوں کے نام سکھائے تھے۔ قرآن مجید میں فرشتوں کے سامنے ان چیزوں کے پیش کرنے اور ان کے نام دریافت کرنے کا قصہ بیان کیا گیا ہے، یہ علمِ لغت تھا، جس کی آدم علیہ السلام کو تعلیم دی گئی تھی، اس کے جواب میں فرشتوں نے کہا تھا: ﴿ سُبْحٰنَکَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ﴾[البقرۃ: ۳۲] [تو پاک ہے، ہمیں کچھ علم نہیں مگر جو تونے ہمیں سکھایا، بے شک تو ہی سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے] موسیٰ اور خضرi کا قصہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے، اس کے ضمن میںموسیٰ علیہ السلام کا یہ قول درج ہے: ﴿ ھَلْ اَتَّبِعُکَ عَلٰٓی اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا ﴾[الکھف: ۶۶] [کیا میں تیرے پیچھے چلوں؟ اس (شرط) پر کہ تجھے جو کچھ سکھایا گیا ہے، اس میں سے کچھ بھلائی مجھے سکھا دے؟] مذکورہ بالا آیات میں جس علم کا ذکر ہوا ہے، وہ نفع مند علم ہے۔ غیر نفع مند علم: قرآن مجید میں ایک قوم کی حالت یوں بیان کی گئی ہے کہ انھیں علم دیا گیا تھا، لیکن ان کے علم نے انھیں کوئی فائدہ نہ پہنچایا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوْا التَّوْرٰۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْھَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا﴾ [الجمعۃ: ۵] [ان لوگوں کی مثال جن پر تورات کا بوجھ رکھا گیا، پھر انھوں نے اسے نہیں اٹھایا، گدھے کی مثال کی سی ہے جو کئی کتابوں کا بوجھ اٹھا ئے ہوئے ہے] اس آیت میں بے عمل عالم کو بوجھ بردار گدھے کی مانند قرار دیا گیا ہے۔ ایک اور مقام پر قرآن مجید میں اس سے متعلق اللہ تعالیٰ نے یوں ارشاد فرمایا: ﴿ وَ اتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ الَّذِیْٓ اٰتَیْنٰہُ اٰیٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْھَا فَاَتْبَعَہُ الشَّیْطٰنُ فَکَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ * وَ لَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰہُ بِھَا وَ لٰکِنَّہٗٓ اَخْلَدَ اِلَی الْاَرْضِ وَاتَّبَعَ ھَوٰہُ﴾ [الأعراف: ۱۷۵، ۱۷۶] [اور انھیں اس شخص کی خبر پڑھ کر سنا جسے ہم نے اپنی آیات عطا کیں تو وہ ان سے صاف