کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 203
غیر مناظر کو ان فصول و اصول میں یہ بات بھی معلوم ہو جائے گی کہ کس عالم نے اپنے عقائد کے بیان میں کون سی بات زائد لکھی ہے اور کس نے فقط بیانِ اصول پر قناعت کی ہے، یا کس نے مزید کشف و انکشاف کیا ہے اور کس نے اجمال کو ترجیح دی ہے، لیکن اس کے باوجود ان سب کے عقائد کا مرجع ایک ہے، گو مبانی جدا جدا ہیں۔ عِبَارَاتُنا شَتّٰی وَحُسْنُکَ وَاحِدٌ وَ کُلٌّ إِلٰی ذَاکَ الْجَمَالِ یُشِیْرُ [ہماری (تعریفی) عبارتیں مختلف ہیں، مگر تیرا حسن ایک (اور یکتا) ہے اور ہر عبارت اس (محبوب کے) جمال (وکمال) کی طرف اشارہ کرتی ہے] اردو زبان میں ایسا جامع رسالہ اب تک تالیف نہ ہوا تھا۔ اللہ کے فضل و کرم سے دگر گوں حالات کے باوجود عجلت میں لکھا گیا یہ نفع مند رسالہ تھوڑی سی مدت میں اپنے انجام کو پہنچا۔ ما عقائد جمیل تر گفتیم دُر دریائے معرفت سفتیم [ہم نے خوبصورت عقائد کیا بیان کیے ہیں! یوں سمجھ لو کہ ہم نے دریاے معرفت کے موتی پروئے ہیں] گر تو غواص بحر عرفانی قدر در یگانہ خود دانی [اگر تومعرفت کے سمندر میں غوط زنی کرنے والا ہے تو تو درِ یتیم کی قدر کو جانتا ہی ہے] ھذا فإن کنت أحسنت فیما جمعت و أصبت في الذي صنعت فذلک من عمیم منن اللّٰہ وجزیل فضلہ و عظیم أنعمہ عليّ وجلیل طولہ، وإن أنا أسأتُ فیما فعلتُ وأخطأتُ إذ وضعتُ فما أجدر الإنسان بالإسائۃ والعیوب إذ لم یعصمہ ویحفظہ علام الغیوب۔ وما أبریٔ نفسي إنني بشر أسھو وأخطیٔ ما لم یحمني قدر ولا تری عذرا أولی بذي زلل من أن یقول مقرا أنني بشر