کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 201
ظاہرِ کتاب اور سنت صحیحہ کے مخالف ہے تو اسے نہایت اختصار کے ساتھ ایک علاحدہ فصل میں لکھ دیا ہے، تاکہ ہر علمِ حق کا طالب راجح اور مرجوح میں فرق کر لے اور اپنے اعتقاد کو کتاب کے ظاہر اور واضح سنت کے موافق رکھے اور اشعری یا ماتریدی یا حنبلی مقلد نہ بنے۔ فقہاے مالکیہ و شافعیہ اصولِ دین میں ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کے طریقۂ عقائد کے مقلد ہیں۔ احناف ابو منصور ماتریدی رحمہ اللہ کے طریقے کے مقلد ہیں اور حنابلہ بذات خود صاحبِ اصولِ دین ہیں، جن کے عقائد ظاہرِ حدیث کے موافق ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے کسی جگہ اتفاقاً کسی ضعیف جانب کو اختیار کیا ہو۔ رہے اہلِ حدیث تو جس طرح وہ فروع میں کسی خاص امام کے مقلد نہیں ہیں، اسی طرح اصول میں بھی وہ اشعری ہیں نہ ماتریدی اور نہ حنبلی، بلکہ جو کچھ کتاب عزیر کے دلائل میں بیان ہوا ہے اور سنت مطہرہ وصحیحہ سے ثابت ہو چکا ہے، اسی پر اعتقاد رکھتے ہیں، خواہ ان کا وہ عقیدہ اشاعرہ کے موافق ہو یا ماتریدیہ کے مطابق ہو یا حنابلہ کے یا ان سب کے مخالف ہو۔ فرقہ ظاہریہ کا حال بھی کچھ اس طرح کا ہے کہ وہ ظاہر و واضح قرآن و حدیث کے پابند ہیں، کسی کے اجتہاد اور رائے کے ضرورت مند نہیں ہیں۔ صوفیہ صافیہ کا بھی یہی طریقہ ہے کہ وہ اصول و فروع میں اہلِ حدیث کے طریقے پر گامزن ہیں اور عقیدہ و عمل میں کسی خاص مذہب کی تقلید کو واجب نہیں جانتے، بلکہ اتباعِ سنت کو تمام طریقوں پر مقدم رکھتے ہیں۔ کشف ومکاشفہ کے بعض مسائل میں ان کا اہلِ حدیث کے ساتھ تھوڑا سا اختلاف ہے، لیکن اکابر صوفیہ نے خود یہ تصریح کی ہے کہ کاشف کا کشف یا سوئے ہوئے کا خواب یا ملہم کا الہام کوئی شرعی دلیل نہیں ہے، اسی لیے یہ لوگ اصولِ عقائد میں غالباً اہلِ حدیث کے ساتھ موافق ہیں۔ یہ موافقت کیا ہی اچھی اور یہ اتفاق کیا ہی عمدہ ہے! امت کے برگزیدہ لوگوں اور دینِ اسلام کے منتخب افراد میں یہی دو گروہ ہیں، ایک اہلِ حدیث، دوسرے صوفیہ۔ باقی رہے فقہاے مذاہب تو ان میں سے اکثر علماے دنیا ہیں، علماے آخرت نہیں اور ان کے احکام و فتاوی کا مرجع بس یہی دنیاوی امور اور معاملات ہیں، سوائے ان لوگوں کے جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت فرمائی ہے، وہی اس سے بچ پائے ہیں۔