کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 186
47۔اہلِ حدیث کے نزدیک ایمان یہ ہے کہ اللہ پر ایمان لایا جائے، نیز اس بات پر کہ جو چیز مخلوق سے چوک گئی ہے، وہ انھیں پہنچنے والی نہ تھی اور جو چیز انھیں پہنچی ہے، وہ ان سے چوکنے والی نہ تھی۔ 48۔اسلام یہ ہے کہ بندہ یہ گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، جس طرح کہ حدیث میں آیا ہے۔ اہل حدیث کے نزدیک اسلام غیر ایمان ہے۔ 49۔وہ اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مقلب القلوب ہے۔ 50۔وہ اس کے بھی اقراری ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے اہلِ کبائر کے حق میں ہو گی۔ 51۔موت کے بعد اٹھنا حق ہے، پھر اللہ کی طرف سے بندوں کا محاسبہ ہونا حق ہے اور اللہ کے سامنے کھڑا ہونا حق ہے۔ 52۔اہلِ حدیث اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ایمان قول و عمل کا نام ہے اور وہ اس بحث میں نہیں پڑتے کہ ایمان مخلوق ہے یا غیر مخلوق؟ ہاں یہ ضرور کہتے ہیں کہ اسماے الٰہی عین الٰہی ہیں۔ 53۔وہ اہلِ کبائر میں سے کسی کے دوزخی ہونے کی گواہی دیتے ہیں نہ کسی موحد معین کے جنتی ہونے کا حکم لگاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ خود ہی انھیں جہاں چاہے داخل کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کا اختیار اللہ کو ہے، چاہے انھیں عذاب کرے اور اگر چاہے تو انھیں بخش دے۔ 54۔اہلِ حدیث اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ موحدین کی ایک جماعت کو دوزخ سے نکالے گا، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث میں مروی ہیں۔ 55۔وہ دین کے اندر قدر سے متعلق جدال اور جھگڑے کو ناپسند کرتے ہیں، جس میں اہلِ جدل مناظرہ کرتے اور جھگڑتے ہیں۔ 56۔اہلِ حدیث صحیح روایات کو مانتے ہیںاور ان آثار کو بھی جو ثقات کے ذریعے مروی ہیں اور ایک عادل راوی نے دوسرے عادل راوی سے ان کو روایت کیا ہے، یہاں تک اس کا سلسلہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک جا پہنچے۔ 57۔وہ مسئلہ تقدیر میں ’’کیوں کر‘‘ اور ’’کس لیے‘‘ کے الفاظ نہیں بولتے، اس لیے کہ یہ کہنا بدعت ہے۔ 58۔ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بدی کا حکم نہیں دیا ہے، بلکہ بدی سے منع فرمایا ہے اور بھلائی کا