کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 179
بجا لاتے ہیں جو ان کی تقدیر میں لکھے ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کا عدل ہے۔ زنا، چوری، شراب خوری، قتلِ نفس، حرام مال کھانا اور دیگر سارے گناہ اس کی قضا و قدر سے ہیں، بغیر اس کے کہ مخلوق میں سے کوئی اس کے خلاف حجت بازی کرے، بلکہ مخلوق پر حجت بالغہ اللہ ہی کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ جو کام کرتا ہے، اس سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کر سکتا، جب کہ لوگوں سے ان کے اعمال کی پوچھ گچھ ہوتی ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کا علم اس کی مخلوق پر اس کی مشیت کے موافق جاری ہے۔ وہ ابلیس وغیرہ کی معصیت کو جانتا ہے، جب سے اس نے معصیت کی اور جب تک قیامت قائم ہو گی، اس نے عاصیوں کو معصیت کے لیے پیدا کیا ہے۔ اہلِ اطاعت سے اطاعت کو جانا اور ان کو اطاعت کے لیے پیدا کیا، لہٰذا ہر کوئی وہی کام کرتا ہے جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے۔ وہ اسی حکم کی طرف لوٹنے والا ہے جو اللہ نے اس پر جاری فرمایا ہے۔ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی مشیت اور تقدیر سے تجاوز نہیں کرتا، جو وہ چاہتا ہے، کرتا ہے۔ 6۔ جس شخص نے یہ گمان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے تو نافرمانوں سے بھلائی اور اطاعت چاہی تھی، لیکن بندوں نے اپنی خواہش کے مطابق اپنے لیے برائی اور نافرمانی چاہی اور اپنی خواہش کے موافق کام کیا تو اس شخص نے یہ گمان کیا کہ بندوں کی خواہش اللہ کی خواہش پر غالب ہے، اس سے بڑھ کر اللہ پر اور کیا افترا ہوگا؟ جس نے یہ گمان کیا کہ زنا تقدیر سے نہیں ہے تو اس سے یہ کہنا چاہیے کہ بھلا عورت جو زنا کی وجہ سے حاملہ ہوئی ہے اور اس نے بچہ جنم دیا ہے، اللہ نے اس بچے کو پیدا کرنا چاہا تھا، اس کے علم میں یہ بات تھی یا نہیں؟ اگر وہ جواب دے کہ نہیں تھی تو اس نے گویا یہ گمان کیا کہ اللہ کے ساتھ ساتھ کوئی اور بھی خالق ہے اور یہ صریح شرک ہے۔ جس شخص نے یہ گمان کیا کہ چوری، شراب خوری اور مالِ حرام کھانا قضا و قدر سے نہیں ہے تو اس نے یہ گمان کیا کہ آدمی اس بات پر قادر ہے کہ کوئی دوسرا اس کا رزق کھا جائے، حالانکہ یہ تو صاف مجوسیوں کا قول ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس نے جس طرح سے بھی کھایا ہے، اپنا ہی رزق کھایا ہے، جو اللہ نے اس کے لیے مقدر کیا تھا۔ جس نے یہ گمان کیا کہ قتلِ نفس اللہ کی تقدیر سے نہیں ہے، اس نے یہ گمان کیا کہ مقتول بے موت مر گیا ہے، اس سے بڑھ کر اور کیا کفر ہو گا؟