کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 178
بارھویں فصل عقائدِ اہلِ حدیث کا بیان اہلِ حدیث کا عقیدہ یہ ہے: 1۔ وہ اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کے رسولوں، جو کچھ اس کے پاس سے آیا ہے اور جو کچھ ثقہ راویوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، اس کا اقرار کرے اور ان میںسے کسی چیز کو رد نہ کرے۔ 2۔ یقینا اللہ تعالیٰ ہی ایک معبود ہے، وہ اکیلا بے نیاز ہے۔ اس کی بیوی ہے نہ اولاد اور یقینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ 3۔ ایمان قول و عمل اور سنت کے ساتھ تمسک کرنے کا نام ہے۔ ایمان کم اور زیادہ ہوتا ہے۔ بندہ اپنا ایمان بیان کرتے وقت ان شاء اللہ کہے، لیکن شک کے طور پر نہیں، بلکہ علما کے ہاں یہ ایک طریقہ رائج ہے کہ جب کوئی پوچھے: کیا تو مومن ہے؟ تو جواب میں کہے: میں ان شاء اللہ مومن ہوں۔ یا وہ کہے: میں مومن ہوں اور ساتھ کہے: ’’أرجو اللّٰہ ‘‘ [میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے مومن بنا دے] یا وہ یہ کہے کہ میں اللہ پر، اس کے فرشتوں، کتابوں اور رسولوں پر ایمان لایا۔ جس نے یہ گمان کیا کہ ایمان قول بلا عمل کا نام ہے تو وہ مُرجی ہے۔ جس نے یہ گمان کیا کہ ایمان صرف منہ سے کہنا ہے اور اعمال تو نرے شرائع ہیں تو وہ بھی مُرجی ہے۔ جس نے یہ گمان کیا کہ اس کا ایمان جبریل و ملائکہ کی مانند ہے تو وہ بھی مُرجی ہے۔ جس نے یہ گمان کیا کہ معرفت دل میں ہوتی ہے، اگرچہ اس کے ساتھ تکلم نہ کرے تو وہ بھی مُرجی ہے۔ 4۔ اچھی اور بری تقدیر، تھوڑا اور زیادہ، ظاہر و باطن، میٹھا اور کڑوا، محبوب اور مکروہ، خوب و زِشت اور اول و آخر سب اللہ کی طرف سے ہے۔ یہ ایک حکم ہے جو اس نے سب بندوں پر جاری کیا ہے۔ ان پر ایک قدر تو وہ ہے جو از روئے تقدیر ہے کہ کوئی اس کی مشیت و قضا سے تجاوز نہیں کرتا، بلکہ سب لوگ وہی کام کرتے ہیں جس کے لیے اللہ نے انھیں پیدا کیا ہے اور وہی عمل