کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 176
چنانچہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ زمین پر، حاملہ عورتوں کے شکم پر، پہاڑوں پر اور ان کے سوا دیگر جگہوں پر وہ مستوی ہوا۔[1] انتہیٰ شیخ عبدالوہاب شعرانی مصری نے کتاب ’’الیواقیت و الجواہر‘‘ میں سید علی خواص سے نقل کیا ہے کہ یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہے، جس طرح معتزلہ اور قدریہ کہتے ہیں اور اس کی دلیل یہ دیتے ہیں: ﴿ وَ ھُوَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ فِی الْاَرْضِ﴾[الأنعام: ۳] [اور آسمانوں میں اور زمین میں وہی اللہ ہے] ایسا کہنا اس لیے جائز نہیں کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے مکان میں حلول کرنے کا وہم ہوتا ہے۔[2] انتہیٰ۔ مطلب یہ ہے کہ مذکورہ آیت ان کی دلیل نہیں بن سکتی، کیونکہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ آسمان و زمین کا معبود ایک ہی ہے نہ کہ وہی اللہ اپنی ذات کے اعتبار سے ان دونوں جگہوں پر یکساں موجود ہے۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: ’’جس نے یہ گمان کیا کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر عرش پر نہیں ہے اور اپنی مخلوق سے جدا نہیں ہے اور عرش کی طرف اس کی نسبت اسفل السافلین کی طرف اس کی نسبت کی مانند نہیں ہے اور جس نے یہ کہا: ’’سبحان ربي الأعلیٰ‘‘ اور اس نے ویسے ہی یہ کہا: ’’وسبحان ربي الأسفل‘‘ تو اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ بدگمانی کی۔‘‘[3] انتھیٰ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: ’’جب ہم اپنے وجدان کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہم اس بات میں شک نہیں کرتے کہ یقینا اللہ تعالیٰ کو عرش کے ساتھ ایک خصوصیت ہے جو خصوصیت اسے دوسری مخلوقات کے ساتھ نہیں ہے۔ اس مسئلے میں ہمیں استوا علی العرش سے زیادہ فصیح عبارت نہیں ملتی، جس طرح انکشافِ مسموعات و مبصرات میں ہمیں سمع و بصر سے فصیح تر عبارت میسر نہیں آتی۔‘‘ انتھیٰ۔
[1] الغنیۃ للجیلاني (۱/۱۳۲) [2] الیواقیت والجواھر للشعراني (۱/۶۰) [3] زاد المعاد (۳/۱۹۶)