کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 163
سے کسی نے اس مسئلے میں قیاس نہیں کیا اور وہ کیوں کر کرتے؟ قیاس تو اس جگہ کرتے ہیں جہاں کوئی نص قرآن موجود ہو نہ دلیل حدیث اور نہ حجت اجماع، جب کہ یہاں یہ سب کچھ موجود ہے۔ ہاں مخالفین نے اس کے خلاف پر قیاس کیا ہے اور متشابہ سے محکم کو رد کرنا چاہا ہے، مگر کتاب و سنت اور اجماعِ سلف کے مخالف ہونے کے سبب وہ قیاس مردود ہے۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: ’’جو کوئی یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات و صفات سے متعلق اس طرح خبر دی ہے کہ اس کا ظاہر باطل تشبیہ اور تمثیل ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان حقائق کو ترک کر دیا ہے جو اس کے کلام سے مقصود ہیں اور بندوں سے رموز کے ساتھ کلام کیا ہے، دور دراز اشارے کیے اور تشبیہ و تمثیل جیسے امور کے ساتھ صراحت کی اور پھر مخلوق سے یہ بات چاہی کہ وہ کلام اللہ کی تحریف کرنے میں اور اس کے مواضع سے اس کی تاویل کے خلاف اور اس کے ظاہر سے جو سمجھا جاتا ہے، اس کے خلاف تاویل کرنے میں اپنے ذہنوں،قوتوں اور فکروں کو کھپائیں اور اس کے لیے شرعاً و عقلاً طرح طرح کے ناخوش احتمال طلب کریں اور چیستان و معما کے ساتھ ملتی جلتی تاویلیں کریں،ا ور اللہ تعالیٰ نے اپنے اسما و صفات کو پہچاننے کے لیے انھیں اپنی کتاب کے بجائے ان کی عقلوں کے سپرد کر دیا، بلکہ ان سے یہ چاہا کہ وہ اس کے کلام کو اس ظاہری معنی پر محمول نہ کریں جو اس کے خطاب اور لغت سے سمجھا جاتا ہے، باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر تھا کہ اس حق کو کھول کر بیان کر دے جس کی وہ صراحت کرنا چاہتا ہے اور لوگوںکو ان الفاظ کے حوالے سے اطمینان و آرام بخشے جس سے وہ باطل اعتقاد میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کلام تو نہ کیا اور ان کے لیے راہ ہدایت کے خلاف ایک اور ہی راہ اختیار کی، تو ایسا سوچنے والا شخص اللہ کے ساتھ بد گمان ہے۔ ’’اگر کہیں کہ اللہ تعالیٰ ان صریح لفظوں کے ساتھ تعبیر کرنے پر قادر نہیں ہے جن لفظوں کے ساتھ اس شخص اور اس کے اسلاف نے تعبیر کی ہے تو اس میں اللہ تعالیٰ کو عاجز گمان کرنا پڑتا ہے اور اگر کہیں کہ اللہ تعالیٰ قادر تو ہے لیکن اس نے کھول کر بیان نہیں کیا اور صریح بیان سے ایسے الفاظ کی طرف عدول فرمایا جو وہم میں مبتلا کریں بلکہ محال باطل