کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 158
کے ساتھ ثابت کیا ہے۔ جلال الدین دوانی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب کا باوجود علومِ نقلیہ وعقلیہ میں علو مرتبہ ہونے کے جہتِ فوق کے اثبات کی طرف بہت زیادہ میلان ہے۔ اس عبارت میں اگرچہ دوانی رحمہ اللہ نے خود اس صفت کا انکار کیا ہے، مگر اس بات کا اقرار کیا ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس صفت کے قائل تھے اور علوم نقلیہ اور عقلیہ پر قدرت و مہارت رکھتے تھے، وللّٰہ الحمد۔ بارھواں قول: حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے ’’حادي الأرواح‘‘ میں لکھا ہے: ’’وقد جمعنا منہ فی مسألۃ علو الرب علی خلقہ و استوائہ علی عرشہ سفرا متوسطاً‘‘[1] [ہم نے رب تعالیٰ کے اپنی مخلوق سے بلند اور عرش پر مستوی ہونے کے بارے میں ایک متوسط کتاب لکھی ہے] تیرھواں قول: امام ابو الولید رشد نے کہا ہے کہ اہلِ شریعت ہمیشہ جہت کو ثابت کرتے آئے ہیں، یہاں تک کہ معتزلہ نے اس کی نفی کی اور متاخرین اشاعرہ ابو المعالی وغیرہ نے ان کی پیروی کی۔ حتی کہ انھوں نے کہا: ’’سب شریعتیں اس بات پر مبنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمان پر ہے اور وہیں سے فرشتے پیغمبروں کی طرف وحی لے کر اترتے ہیں، وہیں سے کتابیں نازل ہوئیں، اسی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شبِ معراج میں گئے تھے۔ سارے حکما اس پر متفق ہیں کہ اللہ اور فرشتے آسمان پر ہیں جس طرح کہ سب شریعتیں اس پر متفق ہیں۔ پھر عقلی تقریر سے بھی اسے ثابت کیا ہے اور اس شبہے کو باطل ٹھہرایا ہے جس کے سبب سے جہمیہ نے جہت کی نفی کی تھی۔ پھر کہا کہ جہت کا ثابت کرنا شرع و عقل دونوں سے واجب ہے اور اس کا باطل کرنا ساری شریعتوں کو باطل کرنا ہے۔‘‘[2] انتھیٰ ملخصاً، کذا في إغاثۃ اللھفان۔
[1] دیکھیں: حادي الأرواح إلی بلاد الأفراح (ص: ۲۹۲) [2] إغاثۃ اللھفان (۲/۲۵۸)