کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 157
’’جان لو کہ تمھاری عبادت زمین میں نہیں گھستی بلکہ آسمان پر چڑھتی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ﴾[الفاطر: ۱۰] [اسی کی طرف ہر پا کیزہ بات چڑھتی ہے اور نیک عمل اسے بلند کرتا ہے] پس ہمارا رب جہتِ علو میں ہے۔‘‘ انتھیٰ۔ شعرانی نے ایک طرح کا اقرار کر کے اس کی تاویل کی ہے۔ مذکورہ بالا دونوں کتابیں شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی ہیں، ان میں خاص لفظ جہت موجود ہے اور یہ صوفیہ اور اولیا کے گروہ پر ان کی حجت تمام ہے، کیونکہ وہ سب اولیا اور صوفیہ کے سردار ہیں۔ نواں قول: محمد بن موصلی نے کتاب ’’سیف السنۃ الرفیعۃ‘‘ میں لکھا ہے: ’’اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے جدا ہے، فرشتے اس کی طرف چڑھتے ہیں اور اس کے پاس سے اترتے ہیں، اسی نے مسیح علیہ السلام کو اپنے پاس بلایا ہے اور اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں۔‘‘[1] انتھیٰ۔ دسواں قول: امام نووی رحمہ اللہ کی شرح مسلم میں ہے: ’’فمن قال بإثبات جہۃ فوق من غیر تحدید ولا تکییف من المحدثین و الفقہاء والمتکلمین۔۔۔الخ‘‘[2] ’’یہ سب متکلمین، فقہا اور محدثین تحدید و تکییف کے بغیر جہتِ فوق کے قائل ہیں۔‘‘ یہاں سے معلوم ہوا کہ انکارِ جہت پر اجماع و اتفاق نہیں ہوا ہے اور کیوں کر ہوتا کہ ساری امت گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی ہے، وللّٰہ الحمد۔ گیارھواں قول: شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کتاب ’’شرح حدیث النزول‘‘ میں جہتِ فوق کو صحیح دلائل
[1] سیف السنۃ الرفیعۃ (ص: ۴۷۷) [2] شرح صحیح مسلم للنووي ( ۵/۲۴)