کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 153
(( أَلَا ھَلْ بَلَّغْتُ؟ فَقَالُوْا: نَعَمْ، فَجَعَلَ یَرْفَعُ إِصْبَعَہٗ إِلَی السَّمَآئِ وَ یَنْکُتُھَا وَ یَقُوْلُ: اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ )) (أخرجہ مسلم) [1] [کیا میں نے تم کو پہنچا دیا؟ تو انھوں نے کہا: ہاں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آسمان کی طرف اپنی انگلی اٹھانے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے جھکاتے تھے اور ساتھ فرماتے: اے اللہ! گواہ رہنا] اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لاکھ چوبیس ہزار آدمیوں کے روبرو انگلی اٹھائی، جن میں پڑھے لکھے، ان پڑھ، سمجھ دار، مرد، عورت، بوڑھے، لڑکے، شہری، دیہاتی، گنوار اور بدو؛ سب ہی طرح کے لوگ موجود تھے۔ یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری عمر کا ہے جو نہایت راستی اور ایمانداری کا وقت ہوتا ہے۔ اس سے یہی مقصود تھا کہ سب لوگ اللہ تعالیٰ کو ساتوں آسمانوں کے اوپر عرش پر جان لیں۔ ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری عمر میں اتنے بڑے مجمع عظیم و عام میں، جبکہ غلط فہمی کا اندیشہ قوی و غالب تھا، کیوں ایسا لفظ بولتے اور ایسا کام کرتے جس کے ظاہر پر اعتقاد کرنا کفر ہوتا ہے، جس طرح جہمیہ اور معتزلہ کہتے ہیں۔ پھر تلاش بسیار کے باوجود ہمیں مذکورہ بالا اعتقاد کے معارض احادیث نہیں مل سکیں جو حجت و شہرت اور قوت میں ان جیسی ہوں اور مذکورہ احادیث میں موجود حکم کسی مساوی یا قوی نص کے بغیر رد نہیں ہو سکتا ہے، وباللّٰہ التوفیق۔ ٭٭٭
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۶۸۹)