کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 152
جگہ ہے۔ اگر وہ اپنی ذات کے اعتبار سے ہر جگہ ہوتا تو فرشتے آسمان پر کس لیے جاتے اور کس کے پاس جاتے؟ یہاں آسمان بہ مقابلہ زمین واقع ہوا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس جگہ فوق و علو سے مراد جہت ہے نہ کہ فوقیتِ رتبہ۔ چودھویں حدیث: قصہ معراج میں ہے: (( اِنْتَہیٰ بِہٖ إِلٰی سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی وَہِيَ فِيْ السَّمَائِ السَّادِسَۃِ إِلَیْہَا یَنْتَھِيْ مَا یُعْرَجُ بِہٖ مِنَ الْأَرْضِ فَیُقْبَضُ مِنْہَا وَإِلَیْہَا یَنْتَھِيْ مَا یُہْبَطُ بِہٖ مِنْ فَوْقِہَا )) (رواہ ابن عرفۃ و أبو نعیم في الدلائل عن ابن مسعود) [1] [(آپ صلی اللہ علیہ وسلم) کو سدرۃ المنتہی بھی لے جایا گیا جو چھٹے آسمان میں ہے اور زمین سے اوپر چڑھنے والی چیزوں کی آخری حد یہی ہے، یہاں سے ان چیزوں کو اٹھا لیا جاتا ہے اور آسمان سے اترنے والی چیزیں بھی یہیں آکر رکتی ہیں] اس حدیث میں بھی جہتِ فوق کی ایسی کمال صراحت ہے جس سے زیادہ صراحت کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ واقعہ معراج پر کئی سندوں سے اور بھی احادیث مروی ہیں، ان سب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک آسمان سے دوسرے پر جانے کی صراحت پائی جاتی ہے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساتویں آسمان پر پہنچے اور اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے ہر جگہ موجود ہوتا، جیسے معتزلہ کہتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان پر بلائے جانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ پھر معراج مناقب نبویہ میں کیوں کر شمار ہوتا اور اس معراج کا منکر کس طرح بدعتی اور گمراہ قرار دیا جاتا؟ اسی طرح بنی آدم کی روحوں کے قبض ہونے سے متعلق بھی بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں، ان میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ اوّلاً فرشتے روحوں کو اللہ کے پاس آسمان پر لے جاتے ہیں، پھر وہاںسے جو حکم ہوتا ہے اس کے مطابق عمل کرتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے عرش پر ہے، مگر اس کا علم، قدرت اور سلطان ہر جگہ ہے۔ پندرھویں حدیث: حجۃ الوداع کے قصے میں ہے:
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۷۳)