کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 151
گیارھویں حدیث: (( اَللّٰھُمَّ إِنَّکَ وَاحِدٌ فِيْ السَّمَآئِ وَأَناَ وَاحِدٌ فِيْ الْأَرْضِ )) (وسندہ حسن) [1] [اے اللہ! تو ایک ہے آسمان میں اور میں ایک ہوں زمین میں] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ملت ابراہیمی میں بھی یہی بات مقرر تھی کہ اللہ آسمان پر ہے اور ہماری ملت وہی ملت حنیفی ہے، إلا ماشاء اللّٰہ تعالیٰ۔ بارھویں حدیث: (( ثُمَّ یَعْرُجُ بِھَآ إِلَی السَّمَآئِ فَیُفْتَحُ لَھَا حَتّٰی یَنْتَھِيَ بِھَآ إِلَی السَّمَآئِ الَّتِيْ فِیْھَا اللّٰہُ )) (رواہ ابن ماجہ) [2] [پھر فرشتے اس (نماز) کو آسمان کی طرف لے جاتے ہیں تو اس کے لیے دروازہ کھولا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اسے لے کر اس آسمان تک جا پہنچتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ ہے] اس حدیث میں اس طرح فوق و علو کی تعیین کی صراحت ہے کہ اس سے زیادہ صراحت کا تصور نہیں کیا جا سکتا ہے۔ تیرھویں حدیث: اللہ تعالیٰ کے ذکر سے متعلق مروی ہے: (( فَإِذَا تَفَرَّقُوْا عَرَجُوْا وَصَعِدُوا إِلَی السَّمَائِ قَالَ: فَیَسْأَلُہُمُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ وَہُوَ أَعْلَمُ بِہِمْ مِنْ أَیْنَ جِئْتُمْ؟ فَیَقُولُوْنَ: جِئْنَا مِنْ عِنْدِ عِبَادٍ لَکَ فِيْ الْأَرْضِ یُسَبِّحُوْنَکَ )) (رواہ مسلم) [3] [پس جب وہ متفرق ہو جاتے ہیں تو وہ آسمان کی طرف چڑھتے ہیں تو اللہ رب العزت ان سے پوچھتا ہے، حالانکہ وہ بہ خوبی جانتا ہے کہ تم کہاں سے آئے ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ ہم زمین میں تیرے بندوں کے پاس سے آئے ہیں جو تیری تسبیح کرتے ہیں] اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے آسمان پر ہے اور اس کا علم ہر
[1] حلیۃ الأولیاء لأبي نعیم (۱/۱۹) اس کی سند میں ’’ابو جعفر‘‘ اور ’’محمد بن یزید رفاعی‘‘ دونوں راوی ضعیف ہیں۔ [2] سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۴۲۶۲) [3] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۶۸۹)