کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 147
پہلے پیغمبر بھی یہی کہتے تھے کہ اللہ آسمان پر ہے نہ کہ زمین پر اور نہ زمین کے نیچے، اور پہلی شریعتوں میں یہی بات مقرر تھی، لہٰذا جو کوئی اللہ تعالیٰ کے اوپر ہونے کا عقیدہ نہیں رکھتا، وہ فرعون کا بھائی ہے۔[1] بارھویں آیت: ﴿ ئَ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآئِ اَنْ یَّخْسِفَ بِکُمُ الاَرْضَ﴾[الملک: ۱۶] [کیا تم اس سے بے خوف ہو گئے ہو جو آسمان میں ہے کہ وہ تمھیں زمین میں دھنسا دے؟] تفسیر ’’فتح الرحمن‘‘ میں ہے: ’’آیا ایمن شدہ اید از کسی کہ در آسمان ست از آنکہ فرو برد شمارا بزمین‘‘ [کیا تم آسمان والے (اللہ) سے بے خوف ہو گئے ہو کہ وہ تمھیں زمین میں دھنسا دے] انتھیٰ۔ یہ آیت سورت ملک میں ان الفاظ سے مکرر ہے: ﴿ اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآئِ اَنْ یُّرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا﴾[الملک: ۱۷] [یا تم اس سے بے خوف ہو گئے ہو جو آسمان میں ہے کہ وہ تم پر پتھراؤ والی آندھی بھیج دے؟] لہٰذا کسی چیز کا اوپر کی طرف سے ڈالنا نیچے کی طرف کو ہوتا ہے۔ تیرھویں آیت: ﴿ تَعْرُجُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ اِِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِینَ اَلْفَ سَنَۃٍ﴾ [المعارج: ۴] [فرشتے اور روح اس کی طرف چڑھتے ہیں، (وہ عذاب ) ایک ایسے دن میں(ہوگا) جس کا اندازہ پچاس ہزار سال ہے] قاضی عیاض رحمہ اللہ کی کتاب ’’الشفائ‘‘ کی شرح ’’نسیم الریاض‘‘ میں ہے کہ عروج کا معنی جہتِ علو میں چڑھنا ہے۔ انتھیٰ۔ علاوہ ازیں خود اس سورت کا نام ’’المعارج‘‘ جہتِ فوق پر دلالت کرتا ہے۔ مذکورہ بالا تیرہ آیات سے اللہ تعالیٰ کے لیے جہتِ فوق اور علو پوری صراحت کے ساتھ ثابت ہوتی ہے۔ متکلمہ، فرعونیہ، جہمیہ اور معتزلہ فرقوں کے لوگ صفتِ استوا اور جہتِ فوق کے منکر ہیں اور ان آیات کی تاویل کرتے ہیں، مگر ان کا اللہ تعالیٰ کی صفتِ استوا اور جہتِ فوق سے انکار کرنا بے جہت ہے۔ ٭٭٭
[1] تنزیہ الذات والصفات لابن العطاس (ص: ۵۷) إعلام الموقعین لابن القیم (۲/۳۰۲)