کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 141
میں لکھا ہے کہ اللہ عرش پر مستوی ہے اور وہ عرش کے اوپر بلکہ ہر چیز کے اوپر ہے، جس طرح اس نے بیان کیا ہے۔[1] سترھواں قول: امام محمد بن محسن عطاس رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’تنزیہ الذات و الصفات‘‘ میں کہا ہے کہ مسلمانوں پر اس آیت کے ساتھ ایمان لانا واجب ہے: ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾[طٰہٰ: ۵] [وہ (ہے اللہ) رحمن جو عرش (بریں) پر متمکن ہے] [2] اٹھارواں قول: امام شوکانی رحمہ اللہ نے تفسیر ’’فتح القدیر‘‘ میں لکھا ہے کہ اس مسئلے میں چودہ قول ہیں، ان میں سے سلف کا مذہب حق اور درست ہے کہ اللہ تعالیٰ بلا کیف جس طرح اس کے لائق ہے، عرش پر مستوی ہے۔[3] انیسواں قول: امام شوکانی رحمہ اللہ نے ’’رسالہ صفات‘‘ میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کی قرآن مجید کی کئی جگہوں میں صراحت ہوئی ہے۔[4] بیسواں قول: شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ محدث دہلوی نے رسالہ ’’حسن العقیدہ‘‘ میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر ہے جس طرح اس نے اپنی ذات کو اس کے ساتھ متصف کیا ہے، لیکن تحیزوجہت کے معنی میں نہیں، بلکہ اس تفوق اور استوا کی کنہ کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا یا وہ پختہ علم والے لوگ جانتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی جناب سے علم عطا کیا ہے۔[5] انتھیٰ۔
[1] إحیا علوم الدین للغزالي (۱/۹۰) [2] تنزیہ الذات والصفات من درن الإلحاد والشبھات للعطاس (ص: ۵۷) امام محمد بن محسن عطاس رحمہ اللہ نے یہ قول امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کی کتاب ’’الإبانۃ‘‘ (ص: ۱۰۵) سے نقل کیا ہے۔ [3] فتح القدیر (۳/۸۸) [4] التحف في مذاہب السلف (ص: ۱۷) [5] دیکھیں: الانتقاد الرجیح في شرح الاعتقاد الصحیح للمؤلف رحمہ اللّٰه (ص: ۶۰)