کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 135
اس حدیث میں حدیث سابق کے قرینے سے گھر سے مراد عرش ہے۔ ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ یہاں اور وہاں دونوں جگہ استوا ثابت ہے۔ پانچویں حدیث: جمعہ کے دن کی فضیلت سے متعلق مروی ہے: (( ھُوَ الْیَوْمُ الَّذِيْ اسْتَویٰ فِیْہِ رَبُّکَ تَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ عَلَی الْعَرْشِ )) (رواہ الشافعي في مسندہ) [1] [یہ (جمعہ) وہی دن ہے جس دن تیرا برکت والا رب عرش پر بلند ہوا] اس حدیث میں استوا کی کمال صراحت ہے، بلکہ اس میں استوا کے دن کی قید بھی مذکور ہے۔ چھٹی حدیث: (( وَیْحَکَ أَتَدْرِيْ مَا اللّٰہُ؟ إِنَّ عَرْشَہُ عَلٰی سَمَاوَاتِہٖ لَہٰکَذَا، وَقَالَ بِأَصَابِعِہٖ مِثْلَ الْقُبَّۃِ عَلَیْہِ، وَإِنَّہُ لَیَئِطُّ بِہٖ أَطِیْطَ الرَّحْلِ بِالرَّاکِبِ )) (رواہ أبوداؤد) [2] [تجھ پر افسوس ہے! کیا تو جانتا ہے کہ اللہ کی کیا شان ہے؟ بلاشبہہ اس کا عرش اس کے آسمانوں پر اس طرح ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں سے قبے کی سی شکل بنائی اور فرمایا: بے شک عرشِ الٰہی چرچرا رہا ہے جیسے پالان اپنے سوار سے چرچراتا ہے] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عرشِ الٰہی تمام آسمانوں کو محیط ہے اور اللہ تعالیٰ عرش پر ہے۔ یہ حدیث گویا آیتِ استوا کی تفسیر ہے۔ ساتویں حدیث: جس میں ان بکریوں کا ذکر ہے جس پر عرش پر رکھا گیا ہے، اس حدیث میں آسمانوں کی گنتی اور مسافت بیان کرنے کے بعد یوں فرمایا: (( ثُمَّ اللّٰہُ فَوْقَ ذٰلِکَ )) (رواہ الترمذي و أبوداؤد) [3] [پھر اللہ اس سے اوپر ہے]
[1] مسند الشافعي (۱/۷۰) اس کی سند میں ’’ابراہیم بن محمد‘‘ راوی سخت ضعیف ہے۔ [2] سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۴۷۲۶) اس کی سند میں ’’جبیر بن محمد‘‘ مستور اور ضعیف ہے۔ [3] سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۴۷۲۳) سنن الترمذي (۳۳۲۰) اس کی سند میں ’’عبداللّٰه بن عمیرہ‘‘ ضعیف ہے اور سلسلہ سند میں انقطاع ہے۔ نیز اس کی سند میں ’’سماک بن حرب‘‘ بھی مختلط ہے، لہٰذا یہ حدیث ضعیف ہے۔