کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 129
دریافت ہو سکیں اور اہلِ اتباع ان کی اقتدا کریں۔ ان کی حسبِ فرمایش میں نے یہ رسالہ لکھا ہے۔ چونکہ اس شہر میں مسئلہ فوق واستوا کی تحقیق اہلِ حدیث کے مختار مذہب کے موافق درپیش تھی، اس لیے پہلے اسی مسئلے کے چند دلائل چند فصلوں میں لکھے۔ اس کے بعد آخری فصل میں اہل حدیث کے بقیہ عقائد کو دلائل ذکر کیے بغیر تحریر کیا۔ جو شخص ان عقائد کے دلائل بھی معلوم کرنا چاہتا ہو وہ عربی زبان میں لکھے گئے ہمارے رسالے ’’الانتقاد في شرح الاعتقاد‘‘[1] کا، جو اسی سال ۱۲۸۳ ہجری میں لکھا گیا ہے، مطالعہ کرے، ان شاء اللہ اسے دل جمعی اور اطمینان حاصل ہو جائے گا۔ زیر تحریر رسالے کو میں نے ’’ترجمہ ثلاثیات بخاری‘‘ اور ’’چہل حدیث ثنائی‘‘ کے بعد لکھا اور اس کا نام ’’الاحتواء علی مسئلۃ الاستوائ‘‘ رکھا ہے، و باللّٰہ التوفیق۔ اس رسالے کی تحریر کے بعد ۱۳۰۲ ہجری میں مَیں نے ایک رسالہ ’’فتح الباب بعقائد أولي الألباب‘‘ کے نام سے تحریر کیا ہے جس میں عقائد کو دلیل و تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے، اس کا مطالعہ کرنے سے اہلِ سنت کے جملہ عقائد پر اطلاع حاصل ہوتی ہے۔ اس رسالے پر بعض اہلِ علم کی فرمایش پر سرسری طور پر نظرثانی بھی کی گئی ہے۔ واللّٰہ المستعان۔ ٭٭٭
[1] اس سے مراد مولف رحمہ اللہ کا رسالہ ’’الانتقاد الرجیح في شرح الاعتقاد الصحیح‘‘ ہے، جو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے رسالے ’’الاعتقاد الصحیح‘‘ کی شرح پر مشتمل ہے۔