کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 121
تو جس شخص نے کسی کبیرہ گناہ سے توبہ کی ہے، اس کی توبہ صحیح ہے، اگرچہ وہ کسی دوسرے کبیرہ گناہ پر اصرار کیوں نہ کر رہا ہو، اسے اس گناہِ کبیرہ پر، جس سے وہ تائب ہو چکا ہے، عذاب نہیں ہو گا۔ جس شخص نے کبائر سے توبہ کی تو وہ شخص صغائر سے توبہ کرنے سے مستغنی نہیں ہے اور جائز ہے کہ اسے صغائر پر عذاب کیا جائے۔ اہلِ سنت وجماعت کا قطعی طور پر کسی شک و شبہہ کے بغیر یہی قول ہے۔
امام کرمانی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ جب کوئی شخص صحیح توبہ کر لے تو اب وہ توبہ مقبول اور غیر مردود ہو گی، کیونکہ نص قرآنی کا حکم یہی ہے:
﴿ وَھُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ﴾[الشوریٰ: ۲۵]
[اور وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول کرتا ہے]
یہ کہنا درست نہیں ہے کہ توبہ صحیح کا قبول کرنا اللہ تعالیٰ کی مشیت میں ہے۔ یہ نری جہالت ہے اور اس کے قائل پر کفر ثابت ہونے کا خدشہ ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے بلاشک وشبہہ قطعی طور پر توبہ قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے اور وہ وعدے کا سچا ہے، اس کے وعدے کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ جو تائب شخص صحیح توبہ کے قبول ہونے میں شک کرتا ہے، وہ اس اعتقاد کے سبب سے سخت گناہ گار ہے، بلکہ اس کا یہ گناہ پہلے گناہ سے بڑا ہے۔
امام غزالی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ جب توبہ کی شرائط جمع ہو جاتی ہیں تو وہ ضرور ہی قبول ہوتی ہے۔[1]
’’مالا بد منہ‘‘ میں کہا ہے کہ جس نے اخلاص کے ساتھ توبہ کی تو حسبِ وعدۂ الٰہی اس کا گناہ معاف ہو جاتا ہے۔[2] انتھیٰ۔
جو شخص یہ بات چاہے کہ وہ تمام طوائفِ اسلام کے نزدیک مسلمان ٹھہرے تو اس پر لازم ہے کہ وہ چھوٹے بڑے تمام گناہوں سے تائب ہو، خواہ گناہ اعمالِ ظاہرہ کے متعلق ہوں یا اخلاق باطنہ کے۔ پھر وہ سارے اقوال و افعال و احوال میں ارتداد میں واقع ہونے سے اپنے نفس کی حفاظت کرے، کیونکہ ارتداد اعمال کو برباد کرنے والا، لوگوں کے برے خاتمے کا سبب بننے والا اور حال و مآل کے اعتبار سے خسران و نقصان کا باعث ہوتا ہے۔ اگر اللہ نے ارتداد اس کے مقدر میں کیا ہے اور اس سے ارتداد کا ارتکاب ہو گیا ہے تو وہ فی الفور اس سے تائب ہو اور دوبارہ اس کا ارتکاب نہ کرنے کا
[1] إحیاء علوم الدین (۴/۱۳)
[2] ما لا بد منہ للقاضي ثناء اللّٰه (ص: ۱۱)