کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 116
دے۔ امام کا قائم کرنا واجب ہے اور یہ وجوب مخلوق پر سمعاً ثابت ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے امام بنانے کو ایک اہم کام سمجھا تھا، حتی کہ اس کام کو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین پر بھی مقدم کیا تھا۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی حدیث میں ہے: (( مَنْ مَاتَ وَ لَیْسَ فِيْ عُنُقِہِ بَیْعَۃٌ مَاتَ مِیْتَۃً جَاہِلِیَّۃً )) (رواہ مسلم) [1] [اپنی گردن میں بیعت کا پٹا ڈالے بغیر مرنے والا شخص جاہلیت کی موت مرا] مطلب یہ ہے کہ امام کے ہوتے ہوئے جو شخص اس کی بیعت کیے بغیر مرے گا، اس کا یہی حکم ہے کہ وہ جاہلیت کی موت مرا۔ اگر وقت اس طرح کا ہو کہ امام و خلیفہ موجود نہیں ہے تو پھر امید ہے کہ اس پر یہ حکم نہیں لگے گا۔ شروطِ امامت: امام و خلیفہ آزاد، مذکر اور عاقل و بالغ ہو نہ کہ عورت، بچہ اور مجنون۔ وہ امام اپنی رائے اور رویے کی قوت اور رعب و دبدبے سے سیاست کرے، نیز وہ احکام کے نفاذ، اسلامی حدود کی حفاظت اور مظلوم کو ظالم سے حق لے کر دینے پر قادر ہو۔ بہادر، صاحبِ رائے، صاحبِ سمع و بصرو نطق ہو۔ اس کا تعلق قریش خاندان سے ہو، کیونکہ اہلِ حل وعقد کے اختیار کے ساتھ غیر قریشی کی امامت و خلافت صحیح نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی زورِ بازو اور زورِ تلوار سے حاکم بن بیٹھے، اگر ایسا ہو تو اس وقت اس کی اطاعت واجب ہوتی ہے، اگرچہ وہ قریشی نہ ہو، کیوں کہ اس کو برخاست کرنے میں اصلاح و فائدے کی نسبت فساد و نقصان زیادہ ہے۔ خلافت کا انعقاد: خلافت کا انعقاد اہلِ حل و عقد کی بیعت سے ہوتا ہے۔ یعنی جس شخص کو اس ملک کے علما، شرفا، امرا اور معززینِ شہر امام بنا دیں، وہ امام بن جاتا ہے، چنانچہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت اسی طرح قائم ہوئی تھی۔ یا اس کا طریقہ یہ ہے کہ خلیفہ خود وصیت کر جائے کہ میرے بعد فلاں شخص امام ہو جس طرح ابوبکر رضی اللہ عنہ ، عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے متعلق وصیت کر گئے تھے۔ یا خلیفہ مسئلہ امارت کو بعد والے لوگوں
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۸۵۱)