کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 113
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی جادو کا اثر ہوا تھا۔ سنت کی حقیقت: سنت حقیقت میں کسی خاص مذہب کا نام نہیں ہے، بلکہ کتاب و سنت کا وہ منطوق ومفہوم، جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ ، گزرے ہیں، وہی سنت ہے، جیسے سوالِ قبر، وزنِ اعمال اور پل صراط پر سے گزرنا وغیرہ۔ اس سب کا بیان قرآن و حدیث میں آیا ہے۔ ایک دوسری قوم نے اس کی تاویل کی ہے جو اہلِ بدعت ہیں۔ مجدد: زمین پر ہر وقت ایک شخص موجود رہتا ہے جو اللہ کی حجت و شریعت پر قائم ہوتا ہے۔ کوئی دور اور زمانہ مجتہد مجدد سے خالی نہیں ہوتا۔ حدیث میں آیا ہے: (( لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ أُمَّتِيْ ظَاہِرِیْنَ عَلَی الْحَقِّ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَذَلَھُمْ حَتّٰی یَأْتِيَ أَمْرُ اللّٰہِ )) [1] [اس امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا، کوئی خاذل اور مخالف اس کو نقصان نہ پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ قیامت آ جائے] اس گروہ سے مراد جماعتِ اہلِ حدیث و قرآن ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اہلِ غلو کی تحریف، اہلِ جہل کی تاویل اور اہلِ باطل کے انتحال کو دور کرتے رہتے ہیں۔[2] ان ہی سے مردہ سنت کا احیا ہوتا ہے اور بدعت محدثہ ختم ہوتی ہے۔ حدیث میں مجدد عالم کو کہا ہے۔[3] تقلید کا حکم: اہلِ علم کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ مسائل شرعیہ فرعیہ میں تقلید کرنا جائز نہیں ہے۔ امام مالک او رجمہور علما کا یہی موقف ہے۔ یہ لوگ تقلید کو باطل اور اجتہاد کو واجب کہتے ہیں۔ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے تقلید کی ممانعت پر اجماع نقل کیا ہے اور چاروں مجتہدین ائمہ نے تقلید سے منع
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۹۲۰) [2] سنن البیہقي الکبریٰ (۱۰/۲۰۹) [3] سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۴۴۹۱)