کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 111
دنیا میں نہیں آسمانوں کے اوپر ہوئی تھی۔[1] معدوم اور شے کی تحقیق: محققین کے نزدیک معدوم کوئی چیز نہیں ہے اور شے سے مراد امرِ ثابت و متحقق ہے۔ رہی یہ بات کہ معدوم کا نام شے نہیں ہے، یہ ایک لغوی بحث ہے۔ دنیا میں رویتِ باری تعالیٰ ممکن نہیں: اہلِ سنت کا اس بات پر اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رویت عینِ بصر کے ساتھ دنیاو آخرت میں عقلاً جائز ہے اور عقبیٰ میں سمعاً ونقلاً ثابت ہے، لیکن دنیا میں کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو اس آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا ہے، ہاں خواب میں کیفیت کے بغیر دیکھنا ممکن ہے اور یہ ایک طرح کا دلی مشاہدہ ہے۔ روح: روح محدث ہے اور یہ بات دینِ اسلام میں ضرورتاً معلوم ہے۔ سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام اسی کے قائل تھے۔ اہلِ علم نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ جسم اور بدن مر جاتا ہے، مگر روح نہیں مرتی اور اس کو جسدِ خاکی سے جدا ہونے کے بعد نعمتیں ملتی ہیں یا عذاب ہوتا ہے۔
[1] شبِ معراج رویتِ باری تعالیٰ کے سلسلے میں صحابہ کرام اور ائمہ تابعین کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض مطلقاً رویت کی نفی کرتے ہیں، جیسے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور بعض صحابہ کرام صرف قلبی رویت کا اثبات کرتے ہیں۔ حالتِ بیداری میں آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو شبِ معراج دیکھنا؛ یہ کسی صحابی کا قول نہیں ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے رویتِ باری تعالیٰ کے اثبات کے سلسلے میں مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے، لیکن دوسری روایت میں ان سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دل سے دیکھا ہے۔ (صحیح مسلم: ۳/۸) یہ نص صریح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قلبی رویت حاصل ہوئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیداری کی حالت میں آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا۔ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ فرمایا: میں نے نور دیکھا ہے۔ (صحیح مسلم: ۳/۱۵) ایک دوسری روایت میں صراحت ہے کہ (( حِجَابُہٗ النَّوْرُ )) اللہ تعالیٰ کا پردہ نور ہے۔ (صحیح مسلم: ۱۷۹) یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نور کا پردہ دیکھا ہے۔ معلوم ہوا کہ اس دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو بیداری کی حالت میں نہیں دیکھا۔ البتہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار ہو گا اور تمام مومن اس رویت سے مشرف ہوں گے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ جن صحابہ کرام نے رویت کی نفی کی ہے،اس سے مراد آنکھوں سے دیکھنے کی نفی ہے اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جو اثباتِ رویت کا قول مروی ہے، اس سے قلبی رویت مراد ہے، جیسا کہ ان ہی سے ایک دوسری روایت میں مروی ہے۔ امام ابن تیمیہ، ابن قیم، ابن ابی العز، ابن کثیر اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ نے مذکورہ بالا متعارض روایات میں اسی طرح جمع وتطبیق دی ہے۔