کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 104
محمول کیا ہے اور یہ ان کی غلطی ہے۔ اس میثاق کے بعد جو شخص ایمان لایا، وہ تو تصدیق کرنے والا ہوا اور اپنے قول وقرار پر قائم و دائم رہا، اور جس نے کفر کیا، وہ اس میثاق کو بدلنے والا شمار ہوا۔ ہدایت وضلالت: اللہ تعالیٰ نے جس کسی کو گمراہ کیا تو یہ اس کا عدل ہے اور جس کو ہدایت دی تو یہ اس کا فضل ہے۔ ایمان: ایمان دل سے سچا ماننے، زبان سے سچا کہنے اور جوارح سے عمل کرنے کو کہتے ہیں۔ یہ اطاعت کرنے سے بڑھتا ہے اورگناہ کرنے سے کم ہو جاتا ہے۔ بوقتِ ضرورت زبان کی تصدیق ساقط بھی ہو جاتی ہے۔ جس شخص نے دل سے تصدیق کی اور زبان سے اقرار نہ کیا تو وہ اللہ کے نزدیک مومن ہے، [1] گو احکامِ دنیا میں مومن نہ ہو، اور جس نے زبان سے اقرار کیا اور دل سے تصدیق نہ کی جیسے منافق ہے تو وہ مذکورہ شخص کے برعکس ہے۔ ایمان واسلام ایک ہی چیز ہے: ایمان و اسلام ایک ہی چیز ہے، کیونکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص مومن تو ہو مگر مسلمان نہ ہو یا مسلمان تو ہو مگر مومن نہ ہو۔ اسلام انقیاد یعنی عمل کرنے اور اطاعت بجا لانے کا نام ہے۔ ایمان تصدیقِ دل وغیرہ کا نام ہے اور احسان اخلاصِ باطن کا نام ہے۔ حدیثِ جبریل میں اسلام و ایمان کے درمیان جو فرق ہے، وہی قابلِ اعتماد ہے۔ کیا ایمان مخلوق ہے؟ خواب و غفلت، بے ہوشی اور موت کے ساتھ ایمان باقی رہتا ہے، اگرچہ یہ حالت معرفت و تصدیق کی ضد ہے۔ اہلِ ثمر قند نے کہا ہے کہ ایمان مخلوق ہے۔ اہلِ بخارا نے کہا ہے کہ یہ مخلوق نہیں ہے، لیکن اس پر سب کا اتفاق ہے کہ بندوں کے افعال و اعمال سب کے سب مخلوق ہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ
[1] جو شخص زبان سے ایمان کا اقرار واظہار نہیں کرتا، وہ مومن نہیں، کیونکہ ایمان کے لیے مذکورہ بالا تینوں چیزوں کا وجود واجتماع نا گزیر ہے۔ اگر زبان سے اظہار واقرار کے بغیر ایمان کا وجود ہوتا تو بادشاہِ روم ہر قل اور ابو طالب بھی مومن شمار ہوں گے، لیکن معلوم ہے کہ یہ مومن نہیں تھے، کیوں کہ انھوں نے دل سے تصدیق کے باوجود اپنی زبان اور عملی اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول برحق تسلیم نہیں کیا تھا۔