کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 98
’’تذکیر الإخوان بقیۃ تقویۃ الإیمان‘‘ کے نام سے ۱۲۹۳ھ میں مطبع فاروقی دہلی سے شائع ہوا۔ خود محترم ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری حفظہ اللہ عربی مترجم کتاب ’’تقویۃ الایمان‘‘ کے مقدمے میں اس کتاب کا تعارف کراتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ کتاب شاہ محمد اسماعیل شہید کی اردو زبان میں مشہور تصنیف ہے۔ شاہ صاحب نے پہلے عربی زبان میں ’’رد الاشراک‘‘ نامی کتاب تحریر کی تھی، جس میں دو باب تھے۔ پہلا باب توحید کے بارے میں تھا اور دوسرے باب میں اتباعِ سنت اور اجتنابِ بدعت کا بیان تھا، پھر آپ پر یہ بات واضح ہوئی کہ اس کتاب کا پورا فائدہ اس وقت ہو گا جب یہ لوگوں کی عام فہم اردو زبان میں ہو، چنانچہ آپ نے پہلے باب کا اردو میں ترجمہ شرح وتوضیح کے اضافے کے ساتھ کر کے اس کا نام ’’تقویۃ الإیمان‘‘ رکھ دیا اور دوسرے باب کا اردو ترجمہ شاہ صاحب کے تلمیذِ رشید جناب مولانا محمد سلطان خان نے کیا اور اس کا نام ’’تذکیر الإخوان‘‘ رکھا۔ یہ کتاب اپنے اندازِ بیان اور دلائل وبراہین کے اعتبار سے ایک اہم دینی مرجع کی حیثیت رکھتی ہے اور معاشرے میں اس کی زبردست تاثیر ہے۔ اس کو جو مقبولیت حاصل ہوئی، وہ بڑی سے بڑی کتابوں کو نصیب نہ ہو سکی اور علما محققین اس بات کے معترف ہیں کہ یہی وہ کتاب ہے جس نے تنہا دینی اور معاشرتی اصلاح کا کام انجام دیا اور آج ہندوستان میں سنتِ صحیحہ کی نشرواشاعت اور بدعات و رسوم ورواج کے مظاہر کا جو خاتمہ ہم دیکھ رہے ہیں، وہ اسی کتاب اور اس کی زبردست تاثیر کا فیضان ہے۔ لوگوں نے اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس کو بے مثال مقبولیت ملی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اب تک اس کے پچاس لاکھ سے زائد نسخے طبع ہو کر لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ چکے ہیں۔[1] ’’تقویۃ الإیمان‘‘ سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مولانا ابو یحییٰ امام خان نوشہروی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ’’تقویۃ الإیمان‘‘ ہے جس کے ابوابِ توحید اور فصولِ اتباعِ سنت نے بے شمار انسانوں کو پرستارِ خداے واحد اور متبعِ سنتِ نبی خیر الوریٰ بنا دیا۔ جس کے سادہ الفاظ اور اعلا معانی نے عاملین بالحدیث و حاملانِ تقلید سب کو اپنا گرویدہ کر رکھا ہے اور ان میں سے ہر ایک ’’تقویۃ الایمان‘‘ کو اپنا سمجھے بیٹھا ہے اور بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ مذہبی کتابوں میں سب سے زیادہ اشاعت ہندوستان میں اسی کتاب کو نصیب ہوئی اور جماعت اہلِ حدیث کے مخیر اصحاب تو
[1] مقدمہ ’’تقویۃ الإیمان‘‘ (عربی) از ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری حفظہ اللہ (ص: ۲۶-۲۸)۔