کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 97
ہمارے استاذ گرامیِ قدر ماہرِ عربی ادب علامہ شیخ عبدالوحید ابوالقاسم رحمانی رحمہ اللہ (شیخ الجامعۃ السّلفیۃ بنارس) نے حاصل کی۔ آپ نے عالی جناب ڈاکٹر علامہ تقی الدین ہلالی مراکشی رحمہ اللہ کی خواہش اور مولانا عبد الوحید عبدالحق سلفی رحمہ اللہ (ناظم اعلیٰ جامعہ سلفیہ بنارس) کے ایما پر اس کتاب کا عربی زبان میں ترجمہ کیا اور یہ کتاب پہلی مرتبہ ۱۳۹۲ مطابق ۱۹۷۲ء میں ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ کے مقدمے کے ساتھ مطبع جامعہ سلفیہ بنارس سے طبع ہو کر منصہ شہود پر آئی اور اس کو عربی داں حلقے میں کافی پذیرائی حاصل ہوئی۔ فجزاہ اللّٰہ أحسن الجزاء فی الدنیا والآخرۃ، وقدس روحہ ونور ضریحہ۔ اس عربی مترجم کتاب کو پڑھ کر مولانا ابو الحسن میاں ندوی رحمہ اللہ بہت متاثر ہوئے اور انھوں نے خود ’’رسالۃ التوحید‘‘ تصنیف کی۔ علاوہ ازیں اس کے ترجمے اردو، فارسی، ہندی، انگریزی اور تلیگو زبان میں بھی کیے گئے۔ اسی طرح اس کتاب کی اہمیت کے پیش نظر جامعہ سلفیہ بنارس نے اس کے دونوں بابوں کے ترجمے کو یکجا کر کے مولانا حافظ محفوظ الرحمٰن سلفی کی مختصر تعلیق اور ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ کے عرضِ ناشر کے ساتھ ’’تقویۃ الإیمان الکامل‘‘ کے نام سے شائع کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ یہ طباعت ۳۴۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ [1] ’’تقویۃ الایمان‘‘ درحقیقت شاہ محمد اسماعیل شہید ۔قدس اللّٰہ روحہ۔ کی عربی کتاب ’’رد الإشراک‘‘ کے پہلے باب کا شرح وبسط کے ساتھ ترجمہ ہے۔ اس میں ’’لا الہ الا اللّٰہ‘‘ کی وضاحت ہے اور دوسرے باب میں ’’محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کی تشریح ہے۔ خود شاہ صاحب نے اس کتاب کے مقدمے میں تحریر کیا ہے کہ میں نے اس رسالے کا نام ’’تقویۃ الإیمان‘‘ رکھا ہے اور دو ابواب میں اسے تقسیم کیا ہے۔ پہلے باب میں توحید کا بیان اور شرک کی مذمت ہے اور دوسرے باب میں اتباعِ سنت کا بیان اور بدعت کی مذمت ہے۔ عربی کتاب کے اس پہلے باب کا ترجمہ شاہ صاحب نے خود اپنی زندگی میں اردو زبان میں کر کے اس کا نام ’’تقویۃ الایمان‘‘ رکھا اور بابِ دوم کا بھی اردو میں ترجمہ کرنے کا آپ نے ارادہ کیا تھا، مگر زندگی نے وفا نہ کی اور فرصت نہ پائی۔ تو آپ کے بعد آپ کے شاگرد مولانا محمد سلطان خان صاحب نے بابِ دوم کا ترجمہ اردو زبان میں ۱۲۵۰ھ میں شروع کیا اور یہ ترجمہ
[1] جماعت اہلِ حدیث کی تصنیفی خدمات (ص: ۳۹۲)