کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 96
سید محمد علی، مولوی محمد یعقوب بن مملوک علی وغیر ہم۔
لیکن اس کے باوجود مخالفین نہ مانے اور رد وقدح، طعن وتشنیع اور دشنام طرازی کا سلسلہ جاری رہا، بلکہ مذکورہ لوگوں کی تائید نے اس میں اضافہ ہی کیا کہ وہ لوگ اپنی فطرت سے مجبور تھے۔ [1]
جامعہ سلفیہ کے فاضل جناب ڈاکٹر بدر الزماں نیپالی رحمہ اللہ نے اپنے پُرمغز مقالے میں ’’تقویۃ الایمان‘‘ کے شائع ہونے پر اس کی مخالفت وتردید اور اس کی تائید میں لکھی جانے والی کتابوں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ ڈاکٹر موصوف نے تردید میں لکھی جانے والی کتابوں کی تعداد تیس [۳۰] اور تائید میں تحریر کردہ کتابوں کی تعداد ستائیس [۲۷] تحریر کی ہے۔
تائید میں لکھی جانے والی کتابوں میں سے بعض اہم کتب یہ ہیں:
1۔علامہ محمد نقی دہلوی کی ’’نشر في جواب مقالات عشر‘‘
2۔سید نذیر حسین محدث دہلوی اور شیخ علی حسنی لکھنوی کی ’’رسالۃ في تائید تقویۃ الإیمان‘‘
3۔سید امیر حسن سہسوانی کی ’’تحسین تقویۃ الإیمان‘‘
4۔شہود الحق کی ’’صیانۃ الإیمان‘‘
5۔مولانا عبد القہار گوالیاری کی ’’توقیۃ الإیقان في شرح تقویۃ الإیمان‘‘
6۔شیخ عزیز الدین مراد آبادی کی ’’أکمل البیان في تائید تقویۃ الإیمان‘‘
7۔مولانا داود راز دہلوی رحمہ اللہ کی ’’فیض الرحمٰن في تائید تقویۃ الإیمان‘‘۔[2]
’’تقویۃ الإیمان‘‘ کی مقبولیت اور مخالفت کے پیش نظر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ صرف ایک کتاب ہی نہیں ہے، جس کا مصنف ایسا بلیغ تھا کہ اس کا اندازِ بیان اور طرزِ نگارش آج بھی دلوں پر دستک دے رہا ہے، بلکہ اس کا سحر انگیز بیان اس سرمدی پیام کا امین بھی ہے جس کی تبلیغ ودعوت کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیا ورسل بھیجے۔
’’تقویۃ الإیمان‘‘ کی مقبولیت اور پذیرائی کا اس سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ متعدد زندہ زبانوں میں اس کو منتقل کیا گیا۔ سب سے پہلے اس کو عربی زبان میں منتقل کرنے کی سعادت
[1] اکمل البیان (ص ۸۱۲-۸۱۳)، مجلہ ’’محدث‘‘ بنارس (مجریہ ماہ ستمبر ۲۰۰۱ء، ص:۲۲)
[2] ’’تقویۃ الایمان‘‘ کی تائید وتردید کی تفصیلی بحث کے لیے جامعہ سلفیہ بنارس کا موقر جریدہ ماہنامہ ’’محدث‘‘ (مجریہ جمادی الآخرۃ ۱۴۲۲ھ مطابق ماہ ستمبر ۲۰۰۱ء) کا مطالعہ کریں۔