کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 90
نواب رحمہ اللہ نے ’’دعوۃ الداع‘‘ کے مقدمے میں تحریر فرمایا ہے کہ یہ کتاب تذکیر الاخوان کی تلخیص ہے۔ اس بات کی وضاحت سلفی صاحب نے بھی اپنے پیش لفظ میں کی ہے اور ’’تقویۃ الایمان‘‘ سے متعلق عمدہ معلومات فراہم کی ہیں۔ موصوف نے جامعہ سلفیہ کے فضلا میں سے ان حضرات کے نام بھی ذکر کیے ہیں، جنھوں نے شاہ محمد اسماعیل شہید رحمہ اللہ کی مذکورہ کتاب پر کسی نہ کسی حیثیت سے کام کیا ہے، یقینا یہ تذکرہ مفید اور برمحل ہے۔ ’’تقویۃ الإیمان‘‘ پر ’’ھو المسک ماکررتہ یتضوع‘‘ والی بات صادق ہے۔ میں اس مقام پر بہ طور استدراک نہیں بلکہ اظہارِ حقیقت کے قصد سے ایک دو باتیں ذکر کرنا چاہتا ہوں، امید ہے ’’طولِ ممل‘‘ نہ ہو گا۔ برصغیر کے علماے حق نے توحید، اتباعِ سنت اور شرک وبدعت کی تردید کے باب میں ’’تقویۃ الإیمان‘‘ کی اہمیت پر نظر کرتے ہوئے جس طرح اس کتاب کی خدمت کی ہے، اس میں ایک مختصر سا حصہ جامعہ سلفیہ بنارس کا بھی ہے۔ اس کتاب کا عربی ترجمہ شیخ الجامعہ مولانا عبدالوحید رحمانی رحمہ اللہ نے کیا۔ یہ ستر کی دہائی کے آغاز کی بات ہے، خاکسار اس وقت علی گڑھ میں تھا اور وہیں سے عربی ترجمے کا پیش لفظ لکھ کر بھیجا تھا، پھر اس کی دوسری اشاعت مترجم رحمہ اللہ کے اضافے اور خاکسار کی مراجعت سے منظر عالم پر آئی۔ عربی داں حلقے میں یہ ترجمہ مقبول ہے اور ہندوستانی سماج کے مزاج ومسائل نیز اس کے مذہبی رجحان کو سمجھنے میں اس سے بہت مدد ملتی ہے۔ جامعہ سلفیہ نے ’’تقویۃ الإیمان‘‘ کے دونوں بابوں پر مشتمل ایک مکمل ایڈیشن بھی شائع کیا ہے اور باب اول کو درس میں داخل کیا ہے۔ جامعہ سلفیہ کے ایک فاضل ڈاکٹر اختر جمال محمد لقمان نے ام القریٰ یونیورسٹی مکہ مکرمہ سے نواب رحمہ اللہ پر رسالہ لکھ کر پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے، آپ کے رسالے کا عنوان ’’السید صدیق حسن القنوجي، آراؤہ الاعتقادیۃ وموقفہ من عقیدۃ السلف‘‘ ہے۔ جامعہ سلفیہ ہی کے ایک فیض یافتہ ڈاکٹر ابو حاتم خان نے نواب رحمہ اللہ پر عربی زبان میں ایک مقالہ لکھ کر بنارس ہندو یونیورسٹی سے پی۔ ایچ۔ ڈی (Ph.D.) کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کے مقالے کا عنوان تھا: ’’حیاۃ النواب صدیق حسن ومآثرہ‘‘۔ قارئین کرام بہ خوبی جانتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمانوں کا ایک فرقہ (جو بے حد فخریہ انداز میں