کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 88
اور کبھی کبھی اس کا قدم دائرہ اسلام سے باہر نکل جاتا ہے۔ ان رسوم پر آپ اس پہلو سے بھی نظر ڈالیے کہ ان میں سے اکثر یا سب کھلے شرعی احکام کے بالمقابل ہیں، پھر بھی مسلم معاشرے میں انھیں قبولیت حاصل ہے اور جو لوگ ان کو ختم کرنے کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، انھیں تحقیر وتذلیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پوری اسلامی تاریخ میں اس کشمکش کو دیکھا جا سکتا ہے۔
اصلاحی پہلو کی تکمیل کے خیال سے نواب صاحب نے ’’دعوۃ الداع‘‘ کے اندر زیرِ بحث موضوعات کے لیے اپنی بعض دوسری کتابوں کا حوالہ دیا ہے، تا کہ موضوع پر مزید معلومات حاصل کر کے قاری تشفی حاصل کرے اور توحید وسنت سے متعلق تمام ضروری مسائل اس کی نگاہوں کے سامنے رہیں، ساتھ ہی اسے یہ اندازہ ہو کہ ان بنیادی امور پر علماے حق نے کس قدر توجہ دی ہے۔
نواب صدیق حسن رحمہ اللہ صرف امتِ مسلمہ پر نہیں بلکہ پوری انسانی تاریخ پر غائرانہ نظر رکھتے تھے اور آپ کو اس بات کا بہ خوبی اندازہ تھا کہ سابقہ اقوام سے کہاں لغزش ہوئی اور اصلاح کے عمل میں نقطہ آغاز کیا ہونا چاہیے، اس لیے آپ نے ’’دعوۃ الداع‘‘ کے مقدمے ہی میں اس مسئلے کو منقح کر دیا۔ سورۃ الانعام کی آیت (۱۵۳) پر اظہارِ خیال کے دوران میں فرمایا:
’’یہ آیت اس بات پر دلیل ہے کہ کلمۂ طیبہ کی تصدیق واقرار کے ہمراہ عمل کرنا بھی ضروری ہے، کیونکہ سیدھی راہ پر چلنا عین عمل ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ ایمان کی تکمیل دو طرح پر ہوتی ہے، ایک منطوق کلمۂ طیبہ کے مطابق اعتقاد لانا، دوسرے اس کے معنی پر عمل کرنا۔‘‘ (مقدمہ، ص:۴۶)
حدیث (( بني الإسلام علی خمس ))پر اپنا تاثر یوں ظاہر فرماتے ہیں:
’’یہ اس بات پر دلیل ہے کہ اسلام عمل سے عبارت ہے۔ حدیثِ جبریل علیہ السلام میں بھی اسلام کی یہی تعریف آئی ہے جو اس حدیث میں مذکور ہے۔‘‘ (مقدمہ، ص:۴۷)
عمل کا جو بحران امت میں ہے، اسی سے متعلق عمل کی کیفیت کا مسئلہ بھی ہے۔ ایک طرف عمل میں اخلاص کا فقدان ہے اور دوسری طرف وہ عمل نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق نہیں ہے۔ نواب صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: