کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 86
اسلوبِ بیان اور اندازِ تحریر سے واقفیت کا مدعا اس سے حاصل نہیں ہوتا، دوسرے لفظوں میں اس کی تحریر کا نمونہ ہماری نظروں سے دور ہو جاتا ہے جو ایک طرح سے امانت ہے اور ہم پر اس کا تحفظ ضروری ہے۔ اس معمولی ملاحظے کے باوجود مجھے بے حد مسرت ہے کہ جماعت کے دو مخلص ومعتبر عالموں کے تعاون سے نواب رحمہ اللہ کی ایک معتبر ومفید کتاب منظر عام پر آرہی ہے اور اس طرح علم کی اشاعت اور سلفیت کی تائید کا فرض ادا ہو رہا ہے۔
زمانے کے تقاضوں پر نظر ڈالی جائے تو اس نوعیت کے کام کی سخت ضرورت ہے، یقین جانیے سلفیت کو مطعون کرنے والا طبقہ بہت مختصر ہے، اکثریت ایسے حضرات کی ہے جو کتاب وسنت کی دعوت کو سمجھنے، پھر اس پر عمل پیرا ہونے کی تڑپ رکھتے ہیں، اس لیے مثبت انداز میں دعوت کو پیش کرنے والی کتابوں کی اشاعت ضروری ہے، اور ہمارے علما نے جو ذخیرہ مولفات ہمارے لیے چھوڑا ہے، اس میں اس طرح کی وقیع کتابیں بہت زیادہ ہیں۔ ہمارا یہ دینی وجماعتی فریضہ ہے کہ سلف کے اس ورثے کو موجودہ دور کے سامنے اس کے ذوق اور معیار کے مطابق پیش کریں۔ اس سے بہت بڑی دعوتی ضرورت پوری ہو گی۔ میری اس گزارش کا مقصود دفاعی وجوابی لٹریچر سے صرفِ نظر نہیں، بلکہ ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ سیرت طیبہ میں ہمیں واضح طور پر یہ سبق ملتا ہے۔ اسی طرح ماضی قریب کی جماعتی تاریخ میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں، استثنا کو اصل بنانا یا انفرادی رجحان کو عمومیت دینا مفید نہیں ہوتا۔
کتاب ’’دعوۃ الداع‘‘ کے مشتملات پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہو گا کہ موضوعاتِ بحث اہم اور ضرورت کے عین مطابق ہیں۔ ان میں جن مسائل پر روشنی ڈالی گئی وہ خیالی نہیں بلکہ زندگی سے متعلق ہیں۔ ایک مومن یہ چاہتا ہے کہ ان سے متعلق شریعت کی راہنمائی سے واقف ہو۔
پہلے باب میں سنت وبدعت کی بحث اس لحاظ سے مقدم ہے کہ اعتقادی بدعتیں انسان کا ایمان غارت کر دیتی ہیں اور امت بدعات کی آزمایش میں شروع زمانہ ہی سے مبتلا ہے۔ نیز کتاب کا موضوع ہی سنت وبدعت ہے اور رسول اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کو اسوہ قرار دیا گیا ہے، اس لیے سنت کی بحث کو مقدم کرنا مناسب ہے۔