کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 573
معاد جسمانی (دوبارہ زندہ کیا جانا) کا انکار ہے، کسی کو قدر میں بحث ہے، کسی کو کتاب پر چلنے سے انحراف ہے، اس صورت میں اس کا ظاہری اسلام محض بے کار ٹھہرتا ہے، پھر اگر اسلام و ایمان کو صورتاً درست بھی کر لیا، مگر احسان کو معناً بجا نہ لایا تو بھی صحتِ دین میں بڑا نقصان رہا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آدمی مغفرت و جنت کے لائق جب ہی سمجھا جاتا ہے کہ دین کے ہر سہ مراتب (ایمان واسلام واحسان) کو بہ خوبی ان کی شروط کے مطابق بجا لائے، اگر شرط فوت ہوگئی تو مشروط بھی فوت سمجھو۔ اس زمانے میں کوئی نرا مسلمان ہے، کوئی نرا مومن اور کوئی نرا محسن، پھر بھی وہ اپنے آپ کو دین دار سمجھ کر اپنی مغفرت کا یقین رکھتا ہے۔ اللہ کی عبادت کو لوگوں نے یوں ہلکا سمجھ لیا ہے کہ وہ غفور رحیم ہے، اس کی رحمت اس کے غضب پر سابق ہے، لہٰذا وہ اپنے حقوق کا مطالبہ نہ کرے گا، اس کو ہماری عبادت کی کچھ پروا نہیں ہے، اس بنیاد پر اسلام تو پہلے ہی سے جاتا رہا، اب ایمان کو یوں سبک خیال کر لیا ہے کہ دنیا نقد ہے، آخرت ادھار ہے، اس کو کس نے دیکھا ہے؟ اس جگہ سارا کام تدبیر سے چلتا ہے نہ کہ تقدیر سے۔ جو کچھ اہلِ کلام لکھ گئے ہیں وہی مراتبِ ایمان کے لیے کافی ہیں۔ قرآن وحدیث کا سمجھنا انھیں کا ذمہ تھا، ہم کو کیا حاجت ہے کہ ہم کتاب اللہ کا ترجمہ دیکھیں؟ اس کا مطلب سمجھنے بیٹھیں؟ حدیث کے معنی کو جاننے کا ارادہ کریں؟ یہ کام جن لوگوں کا تھا وہ کر گئے، ہم کو انھیں کی راہ پر چلنا کافی ہے۔
پھر احسان کو یوں بے قدر ٹھہرا دیا ہے کہ دنیا ظاہر پرست ہے، جو کام کرو، وہ ان کو دکھانے، سنانے، خوش کرنے اور نام پیدا کرنے کے لیے کرو۔ اخلاصِ دل ہوا تو کیا ہوا، اس کو کون دیکھتا سنتا پوچھتا ہے؟
غرض کہ دین حق کے جو تین اصول تھے، اب ان سب میں کامل فتور و قصور پیدا ہوگیا ہے۔ اللہ کے عوض سارے غیر اللہ پوجے جاتے ہیں۔ کتاب اللہ کے بجائے علم فروع کی صدہا کتابیں موجود ہیں۔ سنت کے عوض صدہا بدعات پیدا ہو گئی ہیں۔ نماز روزے کے بدلے سیکڑوں منکرات پر عمل ہو رہا ہے۔ زکات تو سیکڑوں میں شاید کوئی ایک دیتا ہو۔ اتفاقاً اگر کوئی حج بھی کر آتا ہے تو مال حلال کو حج و عمرے کے لیے شرط نہیں جانتا۔ ایمان کے عوض صدہا عقلی مسائل پسند آگئے ہیں یا فلاسفہ کی باتوں پر عقیدہ درست کیا جاتا ہے، احسان کے عوض مسئلہ وحدتِ وجود وغیرہ موجود ہے وعلی ہذا القیاس۔