کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 568
کہ بچوں اور چوپایوں کو بھی یہ احوال عارض ہو جاتے ہیں۔ یہاں دنیا میں سارے بشر اس حالت خیر وشر میں شریک ہیں، مگر وہاں خبیث سے طیب کی تمییز بہ خوبی ہو جائے گی۔ 8۔مومن کی ابتلا میں اللہ کی حکمت ہے، جس کی تفصیل اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے، جیسے ذلت و انکسار، افتقار اور سوال و دعا کے ذریعے عبودیت کا اظہار کرنا۔ 9۔اس سارے کارخانے اور آسمان و زمین کی تخلیق سے مقصود بندے کا امتحان لینا ہے کہ دیکھیں وہ کیسے کام کرتا ہے، چنانچہ ارشاد ہے: ﴿لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾ [الملک: ۲] [تاکہ اللہ تمھارا امتحان لے کہ تم میں سے کون اچھے عمل والا ہے] ﴿لِنَبْلُوَھُمْ اَیُّھُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾ [الکھف: ۷] [اور تاکہ ہم انھیں آزمائیں کہ ان میں کون اچھے عمل والا ہے] معلوم ہوا کہ امتحان کا ہونا ضروری ہے، خواہ مومن ہویا کافر۔ دونوں کے امتحان میں اتنا فرق ہے کہ مومن کا امتحان اسہل ہوتا ہے اور اسی دار فانی میں ہو جاتا ہے، البتہ کافر کا امتحان بہت سخت ہے جو یہاں بھی ہوتا ہے اور قیامت میں بھی ہوگا اور ہمیشہ رہے گا۔ 10۔جو بلا بندے کو اللہ کی راہ میں پہنچتی ہے، وہ جان یا مال یا اہل یا محبوب میں پہنچتی ہے۔ جو بلا جان پر آتی ہے، وہ کبھی جان کو تلف کر دیتی ہے اور کبھی الم وتکلیف دیتی ہے۔ ان سب اقسام میں سخت تر یہی بلاے جان ہے۔ یہ بات ہر کسی کومعلوم ہے کہ ساری مخلوق مرنے والی ہے۔ فرمایا: ﴿اِِنَّکَ مَیِّتٌ وَّاِِنَّھُمْ مَیِّتُوْنَ﴾ [الزمر: ۳۰] [بیشک آپ مرنے والے ہیں اور وہ لوگ بھی مریں گے] مومن کی بڑی غایت یہ ہے کہ وہ راہِ خدا میں شہید ہو۔ یہ موت تمام موتوں سے اشرف ہوتی ہے اور سب سے زیادہ سہل تر ہے۔ اس لیے کہ شہید کو موت کی تکلیف فقط اتنی ہی ہوتی ہے، جیسے چیونٹی کے کاٹنے سے اذیت محسوس ہوتی ہے۔[1] شہادت میں کوئی مصیبت موت معتاد سے زیادہ نہیں ہوتی۔ جو کوئی اس مصیبت کو بستر پر موت سے بڑا خیال کرتا ہے، وہ جاہل ہے۔ یہی حال مال، آبرو اور بدن پر آنے
[1] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۶۶۸) مسند أحمد (۲/ ۲۹۷)