کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 567
3۔جب مومن کو تکلیف پہنچتی ہے تو اس کی اطاعت واخلاص کے مطابق اللہ کی طرف سے مدد ملتی ہے۔ 4۔محبتِ الٰہی جس قدر دل میں زیادہ متمکن اور راسخ ہوتی ہے، اتنا ہی محب کو رضاے محبوب میں ہر بلا خوش گوار اور شیریں نظر آتی ہے۔ شاعر نے کہا ہے: لئن سائني إن نلتني بمسائۃ لقد سرني أني خطرت ببالکا [اگر تمھاری طرف سے میرے حق میں کوئی ناخوشگوار بات ہونے سے مجھے تکلیف پہنچی تو کوئی پروا نہیں، بلکہ اس پر مجھے خوشی ہے کہ تمھارے دل میں میرا خیال تو آیا ہے] غم کھاتا ہوں لیکن میری نیت نہیں بھرتی کیا غم ہے مزے کا کہ طبیعت نہیں بھرتی 5۔جو عز و جاہ کفار کو حاصل ہوتا ہے، وہ باطن میں ان کے لیے ذلت ونکبت ہے۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا ہے: ’’إنھم، وإن ھملجت بھم البغال، وطقطقت بھم النعال، فإن ذل المعصیۃ في قلوبھم، أبی اللّٰہ إلا أن یذل من عصاہ‘‘ [یہ کفار اور دنیا دار جو تیز رفتار اور عمدہ چال والے گھوڑوں پر خوش خرامی کرتے ہیں اور چلتے وقت ان کے جوتوں سے دھماکے ہوتے ہیں، درحقیقت ان کے دلوں میں معصیت کی ذلت پنہاں ہوتی ہے اللہ کو اپنے نافرمانوں کی تذلیل کے سوا کوئی اور بات منظور نہیں ہے] 6۔مومن کا بلا میں مبتلا ہونا دوا کے مثل ہے، جس سے بیماریاں دور ہوتی ہیں، اسی لیے سب لوگوں میں زیادہ انبیا مصائب میں گرفتار ہوتے ہیں، پھر ان سے قریب ترین افراد کا درجہ ہے۔ مومن کی ابتلا اس کی صلاحیتِ دین کے برابر ہوتی ہے، اگر اس کے دین میں رقت اور نرمی ہے تو پھر بلا میں بھی خفت ہوتی ہے۔ مومن کے ساتھ بلا برابر لگی رہتی ہے، یہاں تک کہ وہ زمین پر بے گناہ ہو کر چلتا پھرتا ہے۔[1] 7۔کبھی کبھی مومن پر دشمن کا غلبہ ایک امر لازم ہے، جیسے ہر انسان کے لیے اس دار فانی میں سخت گرمی سردی یا امراض و ہموم لازم طبیعت ہوتے ہیں۔ یہ سب بشریت کا مقتضا ہیں، یہاں تک
[1] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۳۹۸) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۴۰۲۳)