کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 565
4۔﴿وَ الْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ﴾ [الأعراف: ۱۲۸] [اور آخرت پرہیز گاروں کے لیے ہے]
تو وہ یہ خیال کرتا ہے کہ یہ آیات نعیمِ آخرت پر محمول ہیں، فقط دنیا میں نصر و ظفر انھیں کفار و اہلِ نفاق کے لیے ہے اور صاحبِ حق اس جگہ مقہور، مغلوب اور مجبور رہتا ہے۔ پھر اگر کوئی اس سے یہ بات کہتا ہے کہ ایسا کیوں کر ہوا ؟ تو وہ شخص اگر اللہ کے احکام کی توجیہ حکمت و مصلحت کے حوالے سے نہیں کر سکتا تو یہ جواب دیتا ہے:
1۔﴿وَ یَفْعَلُ اللّٰہُ مَا یَشَآئُ﴾ [إبراہیم: ۲۷] [اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے]
2۔﴿اِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ مَا یُرِیْدُ﴾ [المائدۃ: ۱] [بیشک اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے]
3۔﴿لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَ ھُمْ یُسْئَلُوْنَ﴾ [الأنبیاء: ۲۳]
[اللہ جو کرتا ہے اس سے کوئی پوچھ نہیں سکتا، اور لوگوں سے ان کے اعمال کی پوچھ ہوگی]
اگر وہ اللہ کے افعال کی توجیہ اور حکمت کا علم رکھنے والا ہو تو یہ کہتا ہے کہ یہ بات اس لیے ہوتی ہے کہ اللہ اس صبر کے عوض ان کو آخرت میں ثواب جزیل، اجر جمیل اور درجات رفیعہ مرحمت فرمائے گا۔ حالانکہ قرآن خلافِ حس وارد نہیں ہوا۔ یہ اس شخص کا جہل ہے اور اللہ کے وعد و وعید سے ناواقفیت ہے، کیونکہ دشمن کو اس پر جو قابو ملا ہے، اس کے ضعفِ ایمان کے سبب سے ملا ہے۔ اگر وہ شرائع و احکام واجبہ پر قائم دائم رہتا تو ہرگز یہ ذلت وخفت اس کو نہ گھیرتی، لیکن چونکہ اس کو اللہ کے وعدے پر پورا وثوق نہیں ہے اور اللہ کی کتاب کا صحیح فہم بھی نہیں ہے، اس لیے وہ ایسا اعتقاد رکھتا ہے، ورنہ قرآن پاک میں دنیا و آخرت دونوں جگہوں کے لیے صراحتاً وعدۂ نصرت آیا ہے، چنانچہ ارشاد ہے:
﴿اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْھَادُ﴾
[المؤمن: ۵۱]
[بے شک ہم اپنے رسولوں اورایمان والوں کی مدد دنیا کی زندگی میں کرتے ہیں اور اس دن بھی جس دن گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے]
دوسری جگہ ارشاد ہے: