کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 558
[میں تمام لوگوں میں سب سے زیادہ شرک سے بے نیاز ہوں۔ جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس میں میرے ساتھ میرے غیر کو شریک کیا تو میں اس کو اور اس کے شریک کیے ہوئے عمل کو چھوڑ دیتا ہوں] شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے: (( مَنْ صَلّٰی یُرائِيْ فَقَدْ أَشْرَکَ وَمَنْ صَامَ یُرَائِيْ فَقَدْ أَشْرَکَ وَمَنْ تَصَدَّقَ یُرَائِيْ فَقَدْ أشْرَکَ )) [1] [جس نے دکھانے کے لیے نماز پڑھی تو اس نے شرک کیا، جس نے دکھانے کے لیے روزہ رکھا تو اس نے شرک کیا اور جس نے دکھانے کے لیے صدقہ کیا تو اس نے شرک کیا] یعنی نماز، روزہ، صدقہ اور کوئی بھی نیک عمل دکھانے کے لیے کرنا شرک ہے۔ امام ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جو عمل غیر اللہ کے لیے کیا جاتا ہے، کبھی وہ محض ریاکاری ہوتا ہے، جیسے منافقین کا عمل ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَ اِذَا قَامُوْٓا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوْا کُسَالٰی یُرَآئُ وْنَ النَّاسَ﴾ [النسائ: ۱۴۲] [جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو کاہلی سے کھڑے ہوتے ہیں لوگوں کو دکھاتے ہیں] یہ محض ریاکاری کی نماز ہے، اس میں للہیت نہیں ہوتی۔ اہلِ ایمان سے ریاکاری غالباً صادر نہیں ہوتی ہے۔ کبھی بندے کا عمل اللہ کے واسطے ہوتا ہے، لیکن اس میں ریاکاری بھی شامل ہو جاتی ہے۔ اب اگر عمل کے آغاز ہی سے اس میں ریا شامل ہے تو نصوص صحیحہ اس کے بطلان پر دلالت کرتی ہیں، لیکن اگر اصل میں ریا مشارک نہیں ہے تو جس قدر ریا کی شمولیت ہے، اتنا ہی نقصان ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریا کا نام شرک خفی رکھا ہے اور اس کو فتنہ دجال سے زیادہ خوفناک فرمایا ہے۔[2] شرکِ ریا کا پتہ چلنا غایت درجہ مشکل امر ہے، چنانچہ بعض مشائخ نے کہا ہے کہ اندھیری رات میں کالے پتھر پر چیونٹی کا چلنا اتنا مشکل نظر نہیں آتا جتنا یہ ریا معلوم کرنا مشکل ہے۔ دوسری حدیث میں ریا کا نام ’’شرک السرائر‘‘ رکھا ہے۔ [3] شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم
[1] مسند أحمد (۴/ ۱۲۵، ۱۲۶) المستدرک للحاکم (۴/ ۳۲۹) [2] مسند أحمد (۳/ ۳۰) [3] صحیح ابن خزیمۃ (۹۳۷) صحیح الترغیب والترھیب (۱/ ۸)