کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 545
دھاگے وغیرہ شامل ہیں۔ اگر جادو بے اصل ہوتا تو اللہ پاک اس سے پناہ مانگنے کا حکم نہ دیتا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک یہودی یا یہودیہ نے جادو کیا تھا۔ جب معوذتین (الفلق والناس) نازل ہوئیں، تب اس کا اثر دور ہوا۔[1] اس سحر کی مدت چالیس دن یا چھے مہینے یا ایک سال تک رہی۔ [2] راغب نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سحر کی تاثیر اس حیثیت سے نہیں ہوئی تھی کہ وہ نبی ورسول تھے، بلکہ اس حیثیت سے کہ وہ انسان اور بشر تھے۔
معوذتین کی ازالۂ سحر میں بڑی تاثیر ہے۔ جو کوئی رات دن ان دونوں سورتوں کو پڑھتا ہے، اس کو اللہ کے حکم سے سحر ضرر نہیں پہنچاتا، بلکہ اگر جادو زدہ شخص ان کو پڑھے تو اس کا سحر دور ہوجاتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوتے تو خود ان کو پڑھ کر اپنے اوپر دم کیا کرتے تھے۔[3] (أخرجہ مالک في الموطأ، وھو في الصحیحین من طریقہ)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے گرہ لگائی، پھر اس میں پھونکا تو اس نے سحر کیا اور وہ مشر ک ہوگیا۔‘‘ [4]
(رواہ النسائي و ابن مردویہ)
صفوان بن سلیم کی روایت میں یہ الفاظ مروی ہیں:
’’جس نے تھوڑا سا یا زیادہ جادو سیکھا تو یہ اﷲ تعالیٰ سے اس کا آخری عہد ہے۔‘‘[5] (رواہ عبد الرزاق)
یعنی وہ مشرک و کافر ہو گیا اور اللہ سے اس کا تعلق ٹوٹ گیا، عیاذاً باللّٰہ۔
لکل شئ إذا فارقتہ عوض
ولیس للّٰه إن فارقتہ عوض
[کوئی چیز بھی تم سے چھوٹ جائے تو اس کا کوئی بدل ہوتا ہے، لیکن اگر اللہ تم سے چھوٹ جائے تو اس کا کوئی بدل نہیں ہے]
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۵۴۳۰) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۱۸۹)
[2] فتح الباري (۱۰/ ۲۲۶)
[3] موطأ الإمام مالک (۱۶۸۷) صحیح البخاري (۵۰۱۶) صحیح مسلم (۴/ ۱۷۲۳)
[4] سنن النسائي، رقم الحدیث (۴۰۷۹) اس کی سند میں ’’عباد بن میسرۃ المنقری‘‘ راوی ضعیف ہے، نیز اس کی سند میں انقطاع ہے۔
[5] مصنف عبد الرزاق (۱۰/ ۱۸۴) یہ روایت مرسل ہے۔