کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 494
اس سے معلوم ہوا کہ جس نام سے نام والے کی پاکیزگی ظاہر ہو، وہ بھی اس نہی میں داخل ہے، جیسے فخر الدین، قطب الدین، سلطان الاولیاء، قطب العرفاء، غوث اعظم وغیرہ۔ اسی طرح بادشاہوں کے جو القاب ان کی موت کے بعد مقرر کیے جاتے ہیں، وہ بھی ممنوع ہیں، جیسے خلد آشیانی، فردوس مکانی، عرش آشیانی وغیرہ،کیونکہ عاقبت کا حال مالک ذو الجلال کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہے۔ اس قسم کے ناموں میں کوئی فال ہے نہ دعا ہے، خصوصاً اس صورت میں کہ ان کے فسق وفجور کا حال معلوم ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ جب میت پر نوحہ کرنے والا میت کے اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے یوں کہتا ہے : ’’وا سیداہ وا جبلاہ‘‘ (ہائے سردار! ہائے پہاڑ!) تو فرشتے قبر میں اس سے کہتے ہیں کہ کیا تو ایسا ہی تھا؟ [1] اس بنیاد پر کسی کو ایسے القاب سے یاد کرنا بالکل ناجائز ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ شرکیہ نام رکھنا: قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے آدم و حوا علیہم السلام کا قصہ بیان کیا ہے کہ جب حوا کو حمل ہوا تو انھوں نے یہ دعا کی کہ اگر بچہ اچھا ہوگا تو ہم شکر بجا لائیں گے، لیکن جب بچہ پیدا ہوا تو انھوں نے شرک کیا۔ [2] یہ آیت اس بات پر دلیل ہے کہ بنی آدم کا حال یہی ہے کہ جب اولاد کی امید ہوتی ہے تو اللہ کو پکارتے ہیں اور شکر کا وعدہ کرتے ہیں، لیکن جب اللہ تعالیٰ اولاد دیتا ہے تو اوروں کو ماننے لگتے ہیں اور ان کی نذر ونیاز کرتے ہیں۔ کوئی بچے کو کسی کی قبر پر لے جاتا ہے، کوئی کسی کے تھان پر پہنچتا ہے، کوئی کسی کی چوٹی رکھتا ہے، کوئی کسی کی بدہی پہناتا ہے، کوئی کسی کی بیڑی ڈالتا ہے، کوئی کسی کا فقیر بناتا ہے، کوئی امام بخش، پیر بخش، سیتلا بخش، گنگا بخش نام رکھتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ ان کی نذر ونیاز کی پروا نہیں رکھتا، وہ بہت بڑا بے نیاز ہے، یہ لوگ خود ہی مردود ومشرک ہو جاتے ہیں۔ برے نام کو بدل دینا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر قبیح اور برے نام کو اچھے نام سے بدل دیا کرتے تھے، چنانچہ ایک لڑکی کا نام
[1] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۰۰۸) سنن ابن ماجہ (۱/ ۷۰۸) [2] سورۃ الأعراف (۱۸۹) اس آیت کریمہ میں آدم و حوا علیہما السلام کے نام کی صراحت نہیں ہے کہ انھوں نے بچہ پیدا ہونے پر شرک کا ارتکاب کیا، البتہ ایک حدیث میں یہ بات مروی ہے، لیکن وہ حدیث ضعیف ہے۔ دیکھیں: تفسیر ابن کثیر (سورۃ الأعراف: ۱۹۰) تحقیق مسند أحمد بن حنبل (۳۳/ ۳۰۵)