کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 472
19۔قاضی ثناء اللہ پانی پتی کی تفسیر: قاضی ثناء اللہ نے ’’تفسیر مظہری‘‘ میں کہا ہے کہ اللہ وجوبِ وجود یا عبادت میں شرک کرنے والے کو نہیں بخشتا، جب کہ وہ مشرک ہونے کی حالت میں مرا ہو۔ ہاں اگر شرک سے توبہ کرکے ایمان لایا ہے تو اس کا گذشتہ شرک اور دوسرے گناہ بخش دیے جاتے ہیں، اس پر تمام لوگوں کا اجماع ہے، اس لیے کہ گناہ سے تائب بے گناہ کی مانند ہو جاتا ہے۔ گویا اس سے کوئی گناہ صادر ہی نہیں ہوا تھا۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ اے رسول! کافروں سے کہہ دو کہ اگر تم باز رہو گے تو تمھارا اگلا گناہ بخش دیا جائے گا۔ ﴿یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ﴾ سے شرک کے ما سوا ہر قسم کے گناہ مراد ہیں، خواہ صغیرہ ہوں یا کبیرہ، عمداً ہوں یا سہواً اور خواہ بے توبہ مر گیا ہو۔ ’’آیت میں لفظ ﴿لِمَنْ یَّشَائُ﴾ شرک کے علاوہ کی مغفرت کی عمومیت بیان کرنے کے لیے ہے، پھر اس کو مشیتِ الٰہی کے ساتھ مقید کرنا مذہب مرجیہ کو باطل کر دیتا ہے۔ یہ لوگ ہر گناہ کی مغفرت کو واجب کہتے ہیں۔ ان کا اعتقاد ہے کہ ایمان کے ہوتے ہوئے کوئی گناہ نقصان نہیں پہنچاتا، جس طرح کہ کوئی عملِ خیر شرک کے ساتھ نفع نہیں دیتا۔ اس میں مذہبِ معتزلہ کی تردید بھی ہے، کیونکہ وہ مغفرتِ ذنوب کو توبہ کے ساتھ مقید کرتے ہیں، حالانکہ یہ آیت مغفرت کو توبہ کے ساتھ مقید کرنے کی نفی پر دلالت کررہی ہے، کیونکہ سیاقِ کلام مشرک اور مذنب کی حالتوں کے درمیان فرق بتانے کے لیے ہے اور جب اس کو مشیت کے ساتھ مقید کریں گے تو تائب کے لیے وجوبِ مغفرت اور غیر تائب کے لیے وجوبِ تعذیب کا قول باطل ہو جائے گا۔ اگر کوئی اعتراض کرے کہ مشیت کی قید وجوب کے منافی نہیں ہے، بلکہ مغفرت کے بعد مشیت کے وجوب کو مستلزم ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس صورت میں اس تقیید کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ ’’اس آیت سے مذہبِ خوارج کا بھی رد ہوتا ہے، جو کہتے ہیں کہ ہر گناہ شرک ہے، اس لیے گناہ گار مخلد فی النار ہوگا۔ امام بغوی رحمہ اللہ نے دوسری آیتِ شرک کے تحت طعمہ بن ابیرق کا پورا قصہ لکھ کر کہا ہے کہ بعض کے نزدیک اس آیت کا نزول حرہ بن سلیم کے بارے میں ہوا ہے۔ یہ شخص ایک بت کو پوجتا تھا، یہاں تک کہ مرگیا۔ اس کے بعد امام بغوی رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بوڑھے اعرابی کا قصہ بھی نقل کیا ہے۔ انتہیٰ۔