کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 471
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( أَنْ تَجْعَلَ لِلّٰہِ نِدًّا وَھُوَ خَلَقَکَ )) [1] (تم اللہ کا شریک یا برابر والا کسی کو بناؤ، حالانکہ اس نے تم کو پیدا کیا ہے)
15۔عمران بن حصین کی حدیث میں شرک کو اکبر کبائر فرمایا ہے۔[2] (رواہ ابن مردویہ) [3]
18۔امام حسن بن محمد نیساپوری کی تفسیر:
مولانا نظام نیساپوری نے اپنی تفسیر ’’انوار التنزیل‘‘ میں کہا ہے کہ یہ آیت ﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ الآیۃ﴾ اس بات پر دلیل ہے کہ یہودی کو عرفِ شرع میں مشرک کہا جاسکتا ہے، اس لیے کہ یہ آیت ایک یہودی قصے ہی سے متصل ہے اور اس بات پر دال ہے کہ شرک کے ما سوا مغفور ہے، جب کہ یہودیت بالاجماع مغفور نہیں ہے، اسی لیے امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ مسلمان کسی ذمی کے بدلے قتل نہیں کیا جاتا، کیونکہ ذمی مشرک ہے اور مشرک مباح الدم ہوتا ہے۔ مباح الدم وہی شخص ہے جس کے قاتل پر قصاص واجب نہ ہو۔ رہی یہ بات کہ ذمی کو قتل کرنے سے نہی وارد ہوئی ہے تو وہ اس دلیل پر ترکِ عمل کا فائدہ نہیں دیتی، لہٰذا قاتل سے سقوطِ قصاص کے بارے میں وہ دلیل معمول بہ رہے گی۔
’’اشاعرہ نے اس آیت سے صاحبِ کبیرہ کی مغفرت قبل از توبہ پر استدلال کیا ہے، کیونکہ آیت کا لفظ ﴿مَا دُوْنَ ذٰلِکَ﴾ اس کو بھی شامل ہے۔ معتزلہ نے اس کو تائب شخص کے ساتھ خاص کیا ہے، جس طرح اول آیت ﴿لَا یَغْفِرُ﴾ غیر تائب کے ساتھ بالاجماع خاص ہے۔ رہی مشیت ﴿لِمَنْ یَّشَائُ﴾ تویہ کبیرہ کی قید ہے، پس صاحبِ کبیرہ مستحق مغفرت ہوگا۔ دوسری آیت میں اللہ نے شرک کو ضلال بعیدفرمایاہے، اس لیے کہ صانع عالم کے وجود اور وحدت سے بڑھ کر کوئی چیز واضح نہیں ہے، مطلوب جتنا اجلا یعنی روشن و واضح تر ہوگا، اس کا نقیض اتنا ہی اَبعد اور اَضل ہوگا۔‘‘ انتہیٰ۔[4]
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۴۲۰۷) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۸۶)
[2] الأدب المفرد (۲۹۳) المعجم الکبیر (۱۸/۱۴۰) امام ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’رواہ الطبراني في الکبیر إلا أن الحسن مدلس و عنعنہ‘‘ (مجمع الزوائد: ۱/۲۹۲)
[3] تفسیر ابن کثیر (۱/ ۸، ۹، ۱۰، ۵۱۱)
[4] تفسیر النیسابوري (۴/ ۴۲۶)