کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 470
کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’جس نے یہ بات جان لی کہ میں گناہوں پر قدرت والا ہوں تو میں اس کو بخش دیتا ہوں اور کچھ پروا نہیں کرتا، جب تک اس نے کسی چیز کو میر ا شریک نہیں ٹھہرا یا ہے۔‘‘[1] 13۔تیرھویں حدیث سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس سے اللہ نے کسی عمل پر ثواب کا وعدہ کیا ہے، اللہ اس کو پورا کرتا ہے اور جس سے کسی عمل پر عقاب کا وعدہ فرمایا ہے، اس میں اللہ کو اختیار ہے۔‘‘ (رواہ البزار و أبو یعلی) [2] ’’اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے لیے خلفِ وعید (وعدۂ عقاب کی خلاف ورزی) جائز ہے اور وعدہ خلافی ناجائز ہے۔ کئی حدیثوں میں صحابہ کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ ہم مرتکبِ کبیرہ کے لیے جہنم کی شہادت دیتے تھے، لیکن جب شرک کے ما سوا کی مغفرت والی آیت نازل ہوئی تو ہم اس سے رک گئے۔[3] رہی آیتِ اسراف علی النفس ﴿قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ﴾ تو یہ توبہ کے ساتھ مشروط ہے۔ جو کوئی کسی گناہ سے توبہ کرتا ہے، اگرچہ وہ گناہ اس سے مکرر ہوا ہو تو اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے، اسی لیے یوں فرمایا ہے کہ اللہ سارے گناہ بخش دیتا ہے، یعنی توبہ مشروط ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوگی تو شرک بھی اس میں داخل رہے گااور یہ درست نہیں ہے، کیونکہ اللہ نے یہاں آیت کو اس بات پر ختم کیا ہے کہ وہ شرک کو نہیں بخشتا ہے، پھر یہ حکم لگایا ہے کہ جو گناہ شرک سے کم ہے، اس کو بخش دیتا ہے، اگر چہ اس سے توبہ نہ کی ہو، اس وجہ سے یہ آیت بڑی امید افزا ہے۔ رہا شرک تو اللہ نے اس کو اثمِ عظیم فرمایا ہے۔ 14۔صحیحین میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے آیا ہے کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟
[1] المعجم الکبیر للطبراني (۱۱/۲۴۱) اس کی سند میں ’’إبراہیم بن حکم بن أبان‘‘ راوی ضعیف ہے۔ [2] مسند أبي یعلی (۶/ ۶۶) اس کی سند میں ’’سہیل بن أبي حزم‘‘ راوی متکلم فیہ ہے، لیکن علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند اگرچہ ضعیف ہے، لیکن اس میں بیان کردہ معنی صحیح ہے: (الصحیحۃ: ۲۴۶۳) [3] اس کی تخریج گزر چکی ہے۔