کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 469
10۔دسویں حدیث سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی ہے: ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہا:
(( مَا تَرَکْتُ حَاجَۃً وَلَا دَاجَۃٍ إِلَّا قَدْ أَتَیْتُ ))’’میں نے ہر طرح کا اچھا برا کام کیا ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تم اس بات کی گواہی نہیں دیتے ہو کہ ’’لا إلٰہ إلا اللّٰہ وأن محمدا رسول اللّٰہ ؟‘‘ اس کو تین بار فرمایا۔ اس نے کہا: ’’ہاں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( فَإِنَّ ذٰلِکَ یَاتِيْ عَلٰی ذٰلِکَ کُلِّہٖ )) [1] ’’بیشک یہ گواہی ان تمام غلط کاریوں پر غالب رہے گی۔‘‘ (رواہ أبو یعلی)
11۔گیارھویں حدیث سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بنی اسرائیل میں ایک آدمی تھا جو عبادت میں محنت کرتا تھا، جب کہ دوسرا شخص اپنی جان پر زیادتی کرتا تھا (یعنی گناہ کے کام میں لگا رہتا تھا) ان دونوں میں دوستی تھی۔ عابد اس گناہ گار کو ہمیشہ گناہ کرتے ہوئے دیکھتا اور کہتا: اے شخص! باز آجا۔ وہ کہتا تو مجھ پر نگہبان مقرر ہوکر آیا ہے؟ یہاں تک کہ ایک دن اس کو ایک گناہ کرتے ہوئے دیکھ کر اس نے کہا: ’’مالک ویحک أقصر!‘‘ (یہ تیرا کیا حال ہو گیا ہے؟ اب تو باز آجا) اس نے کہا: ’’علي أوزاري أبعثت علي رقیبا؟‘‘ ( میرے گناہوں کا نقصان مجھ کو ہوگا۔ کیا تم میرے گناہوں پر نگراں مقرر ہوئے ہو؟) عابد نے کہا: اللہ کی قسم، اللہ تیری مغفرت نہیں فرمائے گا اور نہ کبھی تمھیں جنت میں داخل کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے پاس ایک فرشتہ بھیجا جو ان کی روحیں قبض کر لے۔ جب وہ دونوں اللہ کے پاس اکٹھے ہوئے تو گناہ گار سے کہا: تم جنت میں جاؤ۔ دوسرے (عابد) سے فرمایا: ’’أکنت علی ما في یدي قادرا؟‘‘ (کیا جو چیز میرے قبضہ قدرت میں ہے، تم اس پر قادر ہو؟) اس کو آگ میں لے جاؤ۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں ابو القاسم کی جان ہے،اس نے ایک ہی ایسی بات کہی جس سے اپنی دنیا وآخرت تباہ کر لی۔‘‘ (رواہ أحمد و أبو داود) [2]
12۔بارھویں حدیث سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں
[1] مسند أبي یعلی (۶/۱۵۵) المعجم الکبیر (۷/ ۳۱۴)
[2] مسند أحمد (۲/ ۳۲۳) سنن أبي داود، رقم الحدیث (۴۹۰۱)