کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 465
حرام سے باز نہیں آتا۔ فرمایا اس کا دین کیا ہے ؟ کہا: وہ نمازی موحد ہے۔ فرمایا: تو اس سے اس کا دین مانگ لے۔ اگر ہبہ نہ کرے تو اس سے خرید لے۔ اس آدمی نے اس سے اس کا دین اسی طرح طلب کیا، وہ نہیں مانا تو اس آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہا: ’’وجدتہ شحیحا علی دینہ‘‘ (میں نے اس کو دین پر بخیل پایا ہے) تو اس پر یہ آیت: ﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ﴾ نازل ہوئی۔[1] (رواہ ابن أبي حاتم و الطبراني) دوسری حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اپنی شفاعت اہلِ کبائر کے لیے رکھ چھوڑی ہے۔[2] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مغفرت کو ہر اس شخص پر حرام کیا ہے جو کافر فوت ہوا اور اہلِ توحید کو اپنی مشیت کی امید دلائی ہے، ان کو مغفرت سے مایوس نہیں فرمایا۔[3] 14۔ملا احمد جیون کی تفسیر: ملا جیون نے اپنی تفسیر میں کہا ہے کہ ان دونوں آیتوں کا مفہوم یہ ہے کہ شرک توبہ کے بغیر بخشا نہیں جاتا، البتہ جو گناہ، صغیرہ ہوں یا کبیرہ، شرک سے چھوٹے ہیں، وہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہیں، چاہے ان پر عذاب کرے اور چاہے معاف فرمائے۔ رہا گناہوں سے تائب شخص تو وہ اللہ کے فضل سے مغفور ہے، اس لیے نہیں کہ اس کا بخشنا اللہ پر واجب ہے۔ اہلِ سنت وجماعت کا یہی مذہب ہے۔ پھر ملا جیون نے معتزلہ وخوارج کے مذہب کا رد کیا ہے اور کہا ہے کہ آیت: ﴿اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا﴾ [الزمر: ۵۳] سے توبہ کے بغیر شرک کی مغفرت ثابت نہیں ہوتی ہے۔ انتہیٰ۔[4] 15۔امام شہاب الدین خفاجی کی تفسیر: شہاب خفاجی نے ’’عنایہ‘‘ میں مذہبِ معتزلہ سے متعلق زمخشری کے بیان کی تردید کی ہے اور
[1] تفسیر ابن أبي حاتم (۳/۹۷۱) المعجم الکبیر للطبراني (۴/۱۷۷) امام ہیثمی رحمہ اللّٰه فرماتے ہیں: ’’رواہ الطبراني‘‘ وفیہ واصل بن السائب، وھو ضعیف‘‘ (مجمع الزوائد: ۷/۶۱) [2] المعجم الأوسط (۶/۱۰۶) مسند أبي یعلی (۱۰/۱۸۵) نیز دیکھیں: سنن أبي داود (۴۷۳۹) [3] فتح القدیر للشوکاني (۱/۷۱۷) [4] تفسیر أحمدیہ (ص: ۴۳، اردو مترجم) ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور۔