کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 464
﴿اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَآئِرَ مَا تُنْھَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ﴾ [النسائ: ۳۱]
[اگر تم بڑے گناہوں سے جن سے تمھیں منع کیا جاتا ہے، بچتے رہوگے تو ہم تمھاری برائیاں معاف کردیں گے]
اس میں یہ بتایا ہے کہ کبائر سے بچنے والے کے صغائر کو اللہ تعالیٰ بخشنا چاہتا ہے اور کبائر کے مرتکب کے صغائر نہیں بخشتا ہے۔[1] مگر اس میں تامل ہے۔ پھر دوسری آیت کے ذیل میں کہا ہے کہ یہ آیت خوارج پر رد ہے جو مرتکبِ کبیرہ کو کافر کہتے ہیں۔ ابن فورک نے کہا ہے کہ ہمارے اصحاب کا اس بات پر اجماع ہے کہ فاسق کے لیے خلود فی النار نہیں ہے۔ اہلِ قبلہ میں سے کوئی فاسق اگر توبہ کے بغیر مر گیا اور داخلِ جہنم ہوا تو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت یا رحمت الٰہی کی بدولت لا محالہ جہنم سے باہر نکل آئے گا۔
13۔امام شوکانی کی تفسیر:
امام شوکانی رحمہ اللہ نے ’’فتح القدیر‘‘ میں فرمایا ہے کہ آیتِ شرک کا حکم اہلِ کتاب اور غیر اہلِ کتاب کفار کے تمام گروہوں کو شامل ہے، صرف اہلِ حرب کفار کے لیے خاص نہیں ہے، کیونکہ یہود نے عزیر علیہ السلام کو اور نصاری نے مسیح علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہا ہے۔ یہ نصاری ثالث ثلاثہ کے بھی قائل ہیں، یعنی اللہ کو تین خداؤں کا تیسرا کہتے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مشرک جب اپنے شرک پر مرجاتا ہے تو وہ اہلِ مغفرت میں سے نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے مغفرت کا فضل وکرم اپنی مشیت کے مطابق غیر اہلِ شرک پر کیا ہے، یعنی غیر مشرک نا فرمان اور گناہ گار مسلمان مشیتِ الٰہی کے تحت داخل ہیں، وہ ان میں سے جسے چاہے بخشے اور جسے چاہے نہ بخشے۔ آیت کا ظاہر مفہوم یہ ہے کہ اللہ کی مغفرت اس کے لیے ہے جس کو از راہِ فضل وکرم اس کی مشیت مقتضی ہو، اگر چہ اس گناہ گار سے توبہ واقع نہ ہوئی ہو۔ معتزلہ نے اس آیت کو اجتناب کبائر والی آیت کے ساتھ مقید کیا ہے۔ وہ آیت اس بات پر دلیل ہے کہ سیئات کی مغفرت کبائر سے بچنے والے کے لیے ہوگی، پس مجتنبِ کبائر ان لوگوں میں سے ہے جس کی مغفرت اللہ نے چاہی ہے۔
حکایت:
ابو ایوب انصاری کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہا کہ میر ا بھتیجا
[1] تفسیر الطبري (۸/۴۵۱)