کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 463
نے توبہ کی ہے یا نہیں کی۔ پھر اس بات سے خبر دار کرنے کے لیے کہ اللہ مختار ہے اور اس پر کوئی چیز واجب نہیں ہے، یہ فرمایا: ﴿لِمَنْ یَّشَائُ﴾ کلبی نے کہا ہے کہ یہ آیت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل وحشی کے بارے میں اتری ہے۔[1] 9۔علامہ جلال الدین سیوطی کی تفسیر: جلالین میں ہے کہ ﴿مَا دَوْنَ ذٰلِکَ﴾ سے مراد ماسوا شرک ہے۔ اللہ چاہے تو اس کو معاف کرکے بلا عذاب داخلِ جنت کرے یا عذاب دے کر بخش دے۔ [2] 10۔علامہ معین الدین شافعی کی تفسیر: جامع البیان میں کہا ہے کہ جو بندہ مشرک ہو کر اللہ سے ملتا ہے، اللہ اس کو نہیں بخشتا، البتہ جو شرک سے کم درجے کا گناہ ہے، چاہے صغیرہ ہو یا کبیرہ، اس کو از راہِ کرم بخش دیتا ہے۔ آیت میں شرک کو افتراے اثم عظیم (بڑا گناہ باندھنا) اس لیے فرمایا ہے کہ شرک کے سامنے باقی گناہ حقیر ہیں، اسی لیے دوسری آیت میں شرک کو ’’ضلال بعید‘‘ (دور بہک جانا) کہا ہے، کیونکہ شرک ضلالت کی تمام قسموں سے عظیم ترین اور حق وصواب سے بہت ہی دور ہے۔[3] 11۔امام قرطبی کی تفسیر: امام قرطبی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ آیت میں یہ ارشاد کہ اللہ شرک کو نہیں بخشتا ہے، باتفاقِ اہلِ علم اور بلااختلافِ امت محکم ہے اور شرک سے کم تر گناہ کی مغفرت متشابہ ہے، جس میں علما نے کلام کیا ہے۔[4] 12۔امام ابن جریر طبری کی تفسیر: ابن جریر طبری نے کہا کہ اس آیت نے یہ بات ظاہر کر دی ہے کہ صاحبِ کبیرہ مشیت الٰہی کے تحت ہے، چاہے اللہ اس کو بخشے یا نہ بخشے، بشرطیکہ وہ کبیرہ شرک باللہ نہ ہو۔ بعض علما کا خیال ہے کہ اللہ نے اس مغفرت کو دوسری آیت کے ساتھ مقید کیا ہے:
[1] تفسیر السراج المنیر للشربیني (۱/ ۳۵۴) [2] تفسیر الجلالین (۱/ ۱۰۸) [3] تفسیر جامع البیان (۱/ ۳۶۵، ۴۰۸) [4] تفسیر القرطبي (۵/ ۲۳۵)