کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 462
فرماتا ہے: علما کہاں ہیں ؟ جب وہ حاضر ہوئے تو فرمایا: تم نے اپنے علم میں کیا عمل کیا ہے؟ ہم نے کہا: اے رب! ہم قاصر رہے اور ہم نے کچھ اچھا نہیں کیا۔ پھر اللہ پاک نے وہی سوال کیا، گویا اس جواب کو پسند نہ فرماکر دوسرا جواب چاہا۔ میں نے کہا: میرے صحیفے میں شرک نہیں ہے اور تو نے وعدہ کیا ہے کہ جو گناہ شرک سے کم تر ہے، وہ تو بخش دے گا۔ اللہ نے فرمایا: جاؤ میں نے تم سب کو بخش دیا۔ پھر اس خواب کے تین دن بعد شریح کا انتقال ہو گیا۔ یہ اللہ کے ساتھ ان کے حسن ظن کا نتیجہ ہے۔[1] وللّٰہ الحمد، اللھم اجعلنا منھم (اے اللہ ہمیں بھی انھیں میں شامل فرما) اس کے بعد صاحبِ روح البیان نے دوسری آیت [النساء: ۱۱۶] کی تفسیر میں بوڑھے اعرابی کا قصہ ذکر کرکے کہا ہے کہ شرک صرف توبہ ہی سے بخشا جاتا ہے اور شرک کے ما سوا گناہ معاف ہوتاہے، خواہ توبہ کی ہے یا نہیں کی، لیکن یہ مغفرت ہر کسی کے لیے نہیں ہوتی ہے، بلکہ اس کے لیے جس کا بخشنا اللہ کو منظور ہوتا ہے۔ حدادی نے کہا ہے کہ اللہ پاک نے شرک کو ضلال بعید اس لیے فرمایا ہے کہ جنت سے دور ہونے کے مراتب ہیں، جن میں سب سے زیادہ دوری والا مرتبہ یہی شرک باللہ ہے۔ غرض کہ رذائل میں سب سے زیادہ قبیح شرک ہے، جس طرح توحید تمام حسنات میں بہترین نیکی ہے۔ سیئات کے بھی مراتب ہیں، جیسے حرام کھانا، شراب پینا، غیبت کرنا اور اس طرح کی برائیاں کرنا، لیکن ان سب سے بدترین شرک باللہ ہے، اسی لیے یہ کم بخت بخشا نہیں جاتا، چاہے کھلا شرک ہو یا چھپا، اللہ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔ اسی طرح حسنات کے مدارج ہیں جن کو عمل صالح کا لفظ شامل ہے۔ عمل صالح وہ ہے کہ اس سے اللہ کی ذات مقصود ہو، ان سب میں سب سے بہتر توحید خالص ہے، یہی تمام حسنات کی بنیاد اور ساری سیئات کو دفع کرنے والی ہے۔[2] 8۔علامہ خطیب شربینی کی تفسیر: خطیب نے ’’سراج منیر‘‘ میں پہلی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ارشاد: ﴿لاَ یَغْفِرُ أَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ﴾ اللہ کے عدل کا بیان ہے، پھر یہ ارشاد ﴿وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ﴾ اس کے فضل کا اظہار ہے کہ شرک عظیم کے سوا ہر چھوٹی بڑی معصیت کو بخش دیتا ہے، خواہ اس کے کرنے والے
[1] تفسیر روح البیان (۲/ ۱۷۴) [2] تفسیر روح البیان (۲/ ۲۸۵)