کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 461
پھر مفسر موصوف نے دوسری آیت کے تحت آیتِ اولی کا حوالہ دیتے ہوئے تکرار کا فائدہ تاکید وتشدید قرار دیکر طعمہ بن ابیرق اور بوڑھے اعرابی کے قصے کو آیت کا سببِ نزول بتایا ہے۔[1]
6۔علامہ علی بن ابراہیم مہائمی کی تفسیر:
شیخ علی مہائمی اپنی تفسیر میں کہتے ہیں کہ اللہ شرک کو نہیں بخشتا جس طرح دنیا کے بادشاہ مملکت میں شراکت اور حصے داری کے قصور کو معاف نہیں کرتے۔ ہاں اللہ تعالیٰ شرک سے کم تر گناہ کو بخش دیتا ہے۔ جس نے شرک کیا، اس نے ایک بڑے گناہ کا ارتکاب کیا، لہٰذا حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو سب سے بڑا عذاب دیا جائے جو خلود فی النار ہے۔ انتہیٰ۔[2]
7۔علامہ اسماعیل حقی استانبولی کی تفسیر:
تفسیر روح البیان میں شیخ ابو السعود کی طرح تقریر کرکے کہا ہے کہ سید عثمان کہتے ہیں کہ جو لوگ شرک باللہ سے بچ گئے، اللہ تعالیٰ ان کے شرک نہ کرنے کی وجہ سے ان کے صغائر وکبائر کو بخش دے گا، مگر مشرکوں کے گناہ، جو شرک سے کم تر ہیں، ان کو نہ بخشے گا، اس لیے کہ انھوں نے شرک کیا ہے۔ جس طرح ان کا شرک ناقابل معافی ہے، اسی طرح شرک سے کم تر گناہ بھی مغفور نہ ہوگا، بخلاف مومنین کے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو شرک سے محفوظ رکھ کر اس کے عذاب سے بچایا ہے، اسی طرح ان کو شرک سے کم تر گناہوں کو معاف کرکے ان کے عذاب سے محفوظ رکھے گا، وللّٰه الحمد۔ یہ آیت اس امت کے لیے خیر وفضل کی آیات میں سب سے عظیم تر ہے۔ اس لیے کہ اس آیت نے یہ بات بتائی ہے کہ جو گناہ شرک سے کم تر ہے، وہ مشیتِ الٰہی کے مطابق بخش دیا جائے گا تو جو وعدہ مشیتِ کریم پر معلق ہوتا ہے، وہ پورا ہو کر رہتا ہے۔ خاص کر موحدین مخلصین محمدیین کے حق میں پورا ہونا ہی ہے، جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے: ﴿اِِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا﴾ [الزمر: ۵۳] [اللہ تمام گناہوں کو معاف کر دیتا ہے] پھر اس کے بعد وحشی کا قصہ ذکر کیا ہے۔
حکایت:
ابو العباس شریح نے اپنی بیماری میں یہ خواب دیکھا کہ قیامت قائم ہوئی ہے اور جبار تعالیٰ
[1] تفسیر أبي السعود (۲/۲۳۳)
[2] تبصیر الرحمن و تیسیر المنان للمھائمي (۱/۱۵۱)