کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 460
کی تفسیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس جگہ شرک سے مراد مطلق کفر ہے، جس کے اول درجے میں کفرِ یہود بھی شامل ہے،اس لیے کہ شرع نے تمام اہلِ کتاب کے شرک کی صراحت کی ہے اور کفار کی تمام قسموں پر خلودِ نار کا حکم لگایا ہے۔ مقاتل کے قول کے لحاظ سے اس آیت کا نزول یہود کے بارے میں سباقِ کلام کے زیادہ مناسب ہے، لیکن سیاقِ کلام کفرِ یہود کے خصوصی بیان کا مقتضی نہیں، بلکہ کفرِ یہود اس میں مندرج ہے۔ اس کا اقتضا یہ ہے کہ کفر سے کم تر گناہوں کی مغفرت جائز ہے اور کفر کی مغفرت اللہ تعالیٰ نہیں فرماتا ہے، پس جو شخص کفر کے ساتھ توبہ اور ایمان کے بغیر متصف رہا، اس کی بخشش نہیں ہوگی، کیونکہ حکمت شرعیہ اس بات کی مقتضی ہے کہ کفر کا دروازہ بند رہے۔ جب کفر کی مغفرت ایمان کے بغیر بھی جائز ہوگی تو یہ کفر کا دروازہ کھلنے کا ذریعہ ہوگا۔ ’’دوسرے یہ کہ نورِ ایمان کفر ومعاصی کی ظلمتوں کو ختم کرنے والا ہوتا ہے، اس لیے جو کوئی ایمان نہیں رکھتا، اس کے کفر ومعاصی کی کوئی چیز بخشی نہیں جائے گی، البتہ کبائر وصغائر میں سے جو گناہ شرک سے کم قبیح ہیں، وہ اللہ کے فضل واحسان سے مغفور ہو سکتے ہیں، لیکن ہر گناہ گار کی مغفرت ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ صرف اس گناہ گار کی بخشش ہوگی جسے اللہ چاہے۔ کفر وشرک والوں کی بخشش بالکل نہ ہوگی، اس لیے کہ کفر وشرک سے متصف شخص کی مغفرت اسی طرح محال ہے جیسے حکمت تشریعیہ پر مبنی مشیتِ الٰہی کے تحت اس کا داخل ہونا محال ہے، کیونکہ توبہ کے بغیر معاصی کی مغفرت اہلِ ایمان کے لیے خاص ہے جو ایمان کی ترغیب دینے اور کفر سے زجر و توبیخ کرنے کا ایک کامل اسلوب ہے۔ جس نے مشیت ﴿لِمَنْ یَّشَائُ﴾ کو دونوں فعل ﴿لا یغفر﴾ اور ﴿یغفر﴾ کا متعلق بتایا ہے اور اول کو غیرتائب پر اور ثانی کو تائب پر حمل کیا ہے، وہ راہِ صواب سے بھٹک گیا ہے، اس لیے کہ آیتِ کریمہ کا سیاق کفر کے عظیم ترین جرم ہونے کے اظہار اور اس کو دوسرے معاصی سے ممتاز کرنے کے لیے ہے۔ یہ صریح دلیل ہے کہ کفر کی مغفرت محال اور دوسرے معاصی کی مغفرت جائز وممکن ہے۔ اگر اس کا جواز توبہ کی شرط پر مانا جائے گا تو دونوں کے درمیان کوئی فرق ظاہر نہیں ہوگا، حالانکہ توبہ کی صورت میں دونوں کی مغفرت پر اجماع ہے۔ مزید یہ کہ کفر وطغیان پر سخت توبیخ سے جو مقصود ہے، وہ اب حاصل نہ ہوگا اور توبہ وایمان پر حمل کرنے کا مدعا بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔‘‘[1]
[1] تفسیر أبي السعود (۲/۱۸۷)