کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 459
رہنے والا) نہیں ہوگا، یہ مطلب نہیں کہ اس کو کسی گناہ کی سزا ہی نہ ملے گی، کیوں کہ دیگر احادیث سے ثابت ہو چکا ہے کہ گناہ گار اہلِ توحید کو جہنم کا عذاب ہوگا۔ چنانچہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ’’موجبتان‘‘ کیا ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کی موت اس حالت میں ہوئی کہ وہ شرک نہیں کرتا تھا تو وہ جنت میں جائے گا اور جو اس حالت میں مرا کہ وہ شرک کرتا تھا تو وہ آگ میں جائے گا۔‘‘[1]
تفسیر خازن میں دوسری آیت کے تحت لکھا ہے کہ یہ آیت طعمہ بن ابیرق کے بارے میں اتری جو مرتد اور مشرک ہو کر مر گیا تھا۔ پھر ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ذکر کیا گیا ہے کہ یہ آیت ایک بوڑھے اعرابی کے بارے میں نازل ہوئی، پھر کہا کہ یہ آیت اس بات پر نص صریح ہے کہ شرک بخشا نہیں جاتا ہے، جب اسی پر موت آجائے۔ ہاں مشرک سے توبہ مقبول ہوتی ہے اور تائب کا ایمان صحیح ہے، اس کے سارے گناہ جو اس نے حالتِ شرک میں کیے تھے، معاف کر دیے جاتے ہیں۔ اہلِ علم نے کہا کہ جب ایمان لانے اور توبہ کرنے سے شرک بخش دیا جاتا ہے تو معلوم ہوا کہ جو گناہ شرک سے کمتر ہے، وہ بھی توبہ سے معاف ہو جاتا ہے۔ رہی یہ بات کہ معافی اللہ کی مشیت پر ہے تو یہ اہلِ توحید کے حق میںہے جو توبہ کے بغیر مرجائے۔ حاصل یہ کہ صاحبِ کبیرہ یا صغیرہ جب بغیر توبہ مر جاتا ہے تو وہ مشیتِ الٰہی کے تحت خطرے میں رہتا ہے، چاہے اللہ اس کو معاف کر کے اپنے فضل وکرم سے بہشت میں داخل کرے اور چاہے تو پہلے عذاب دے اور پھر جنت میں لے جائے، لیکن جو شخص شرک پر مرا وہ سخت گمراہی میں پڑا اور ہر خیر سے محروم رہا۔
’’سورۃ النساء میں اس آیت کے مکرر ذکر کا فائدہ یہی تاکید ہے، البتہ ہر آیت کا سببِ نزول علاحدہ ہے۔ پہلی آیت طعمہ بن ابیرق کی چوری کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور دوسری آیت اس کے ارتداد واشراک کے سلسلے میں وارد ہوئی کہ وہ مشرک ہو کر مرگیا۔‘‘ انتہی۔[2]
5۔علامہ ابو سعود عمادی کی تفسیر:
علامہ ابو ا لسعود نے پہلی آیت : ﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ ۔۔۔ الخ﴾ [النساء: ۴۸]
[1] تفسیر الخازن (۱/۴۵۳) نیز دیکھیں: صحیح مسلم، رقم الحدیث (۹۳)
[2] تفسیر الخازن (۱/۴۹۸)